پی ٹی آئی کو فوج سے کون لڑا رہا ہے

622

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل کی پاک فوج میں نفرت پھیلانے کے الزام میں گرفتاری نے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے۔ اگرچہ یہ محاذ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جو رجیم چینج کہلاتا ہے۔ لیکن پاکستان کی سیاست میں نامعلوم کتنے تارپیڈو فٹ کردیے گئے ہیں اب کوئی پارٹی اپنے آپ کو محب وطن قرار دے یا وہ عملاً محب وطن ہو اس کے اندر موجود عناصر ایسا کام کرتے ہیں کہ پوری پارٹی لکیر کے دوسری جانب کھڑی نظر آتی ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان کی سب سے زیادہ غیر معتبر پارٹی تحریک انصاف ہے۔ اس پارٹی کے لیڈر دس پندرہ سالہ جدوجہد کو طویل سمجھ کر ایسے اقدامات کر بیٹھے کہ انہیں شارٹ کٹ میں اقتدار تو مل گیا لیکن اس اقتدار کی قیمت اب وہ اور قوم دونوں چکائیں گے۔ پی ٹی آئی نے الیکٹ ایبلز کی بھرتی جس تیز رفتاری سے کی تھی اور ہر فرد کو جو کسی بھی طرح مقتدرہ حلقوں کے قریب یا تعلق رکھتا تھا اسے پارٹی میں شامل کرلیا پھر جو جتنی لمبی زبان رکھتا تھا اسے اتنا ہی زیادہ اہم مقام اور منصب دیا اس کے بعد جب ان کی حکومت ختم ہوئی تو عمران خان کا بیانیہ صرف پاک فوج پر تنقید کے گرد گھوم رہا تھا۔ وہ مخالف سیاسی پارٹیوں اور فوج کے خلاف اس قدر گرم مہم چلا رہے تھے کہ پورے ملک میں شدید تنائو کی کیفیت پیدا ہوگئی ایسا ہرگز نہیں ہوا کہ عمران خان شہباز شریف کو تھپڑ مار دیں یا آصف زرداری پر حملہ کریں لیکن ان کی جلسوں کی تقریروں نے وہ آگ لگادی کہ نچلی سطح پر پی ٹی آئی کے کارکنوں میں پی ڈی ایم میں شامل پارٹیوں سے نفرت پیدا ہوگئی جو اب رفتہ رفتہ دشمنی میں تبدیل ہورہی تھی کہ فوج مخالف بیانات اور تقریروں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ان حالات میں عمران خان کے چیف آف اسٹاف کہلائے جانے والے شہباز گل نے وہ بیان دے دیا جو پاک فوج کے لیے تکلیف دہ تھا اس کے بعد ان کی گرفتاری عمل میں آگئی اور اب تحقیقات کی جارہی ہیں۔ اس گرفتاری کے فوراً بعد عمران خان نے بیان دیا کہ پی ٹی آئی کو فوج سے لڑوانے کی سازش ہورہی ہے لیکن ساتھ ہی دھمکی بھی دے دی کہ پورا پاکستان بند کرسکتے ہیں آج بھی رجیم چینج کی سازش ہورہی ہے۔ پارٹی توڑنے اور مجھے نااہل قرار دلوانے کی کوشش ہے۔ عمران خان نے جو کچھ کہا ہے ایسا ہی ہوتا نظر بھی آرہا ہے لیکن انہیں بھی یہ معلوم ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے ان کی اپنی کمائی ہے انہوں نے چار سال اپنے مخالفوں کے خلاف قومی اداروں کا خوب استعمال کیا۔ اس وقت مسلم لیگی کہا کرتے تھے کہ سیاسی کارکنوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک ہورہا ہے انہیں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اتنا ظلم کریں جتنا سہہ سکیں۔ اب پی ٹی آئی کی باری ہے۔ گویہ طریقہ غلط ہے لیکن جس طریقے کو پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے پسند کیا ہے اس کے مطابق تو یہی ہونا تھا جو ہورہا ہے۔ اب عمران خان کہہ رہے ہیں کہ سیاسی کارکنوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک ہورہا ہے۔ عمران خان نے خود تندو تیز بیانات دیے پارٹی کی توپ میں جتنی سکت نہیں تھی اس نے بڑے بڑے جملے زبان سے ادا کیے اب بھی کہا ہے کہ پورا ملک بند کرسکتا ہوں۔ یہ رویہ کسی پارٹی کے سربراہ کے شایان شان نہیں خصوصاً ایسی پارٹی کا سربراہ جو خود حکومت میں ہوتے ہوئے یہ سارے کام کرچکا ہو۔ عمران خان خود بتائیں کہ پی ٹی آئی کو فوج سے کون لڑوا رہا ہے کیا انہوں نے ایسے بیانات نہیں دیے تھے جن کے نتیجے میں پارٹی والے زیادہ مشتعل ہو کر فوج کے خلاف باتیں کرنے لگیں۔ وہ خود دیکھیں کہ جونہی یہ بیان آیا ان کے وزیر اور چیف آف اسٹاف کے بارے میں عمران خان کے پسندیدہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے کہا کہ عمران خان شہباز گل کے بیان سے لاتعلقی کا اعلان کریں اور پھر فواد چودھری نے یہ اعلان کر بھی دیا کہ شہباز کا بیان پارٹی کا بیانیہ نہیں۔ اب اس پارٹی نما جتھے میں جو انتشار ہورہا ہے اس کا سبب وہی الیکٹ ایبلز کی سیاست تھی سب کو بھرتی کرلو۔ اب اس بھرتی کی کرنی بھی بھرنی پڑے گی۔ ابھی عمران خان کو نہیں معلوم کہ پارٹی کے کتنے ارکان پارلیمنٹ کب انہیں داغ مفارقت دے جائیں۔ کیونکہ ان میں سے کوئی پارٹی کا اپنا نہیں سب چلتی اقتدار ٹرین میں سوار ہوئے تھے اور جب کسی جہاز کو آگ لگتی ہے تو ایسے ہی لوگ سب سے پہلے جہاز سے کودتے ہیں۔ عمران خان کو اب بھی ایک بڑا یوٹرن لینا ہوگا معقولیت کی سیاست کی طرف۔ دروغ گوئی سے بچنے والی سیاست کی طرف۔ بڑے بڑے دعوے اور جملے کسنے سے بچنا ہوگا۔ ان کے سامنے دونوں راستے ہیں لیکن ان کا مزاج انہیں دوسرے راستے کی طرف لے جارہا ہے جو وہی سے جس کا خدشہ خود انہوں نے ظاہر کیا ہے۔