آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے انکشاف کیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں مون سون کے دوران سیلاب اور قدرتی آفات کے نتیجے میں نقصان کے ازالے کے لیے دی جانے والی رقم میں سے ایک ارب 41 کروڑ روپے سے زاید رقم کا ریکارڈ غائب ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خیبر کرم شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، اورکزئی کے مکمل اور جزوی تباہ شدہ مکانات کے مالکان کو مجموعی طور پر 82 کروڑ 64 لاکھ کی ادائیگی کا ریکارڈ دستیاب نہیں۔ ڈیزاسسٹر مینجمنت اتھارٹی کی جانب سے ڈپٹی کمشنرز کو منتقل کیے گئے 59 کروڑ 22 لاکھ روپے کا ریکارڈ بھی غائب ہے۔ ریکارڈ میں کہا گیا ہے کہ یہ رقم متاثرین میں تقسیم کی جاچکی ہے تاہم جب ان سے متاثرین کے شناختی کارڈ کا ریکارڈ مانگا گیا تو اتھارٹی وہ فراہم نہ کرسکی۔ ظاہر ہے کہ اگر رقم تقسیم کی گئی ہے تو کوئی ریکارڈ تو ہونا چاہیے کچھ شناختی کارڈ نہ ہوتے تو کوئی بات نہیں لیکن یہاں تو سرے سے کوئی ریکارڈ نہیں۔ اس سے قبل مرکز میں بھی کورونا متاثرین کی رقم کے 12 سو ارب روپے کا کوئی حساب نہیں ملا تھا۔ یہ رویہ بتارہا ہے کہ حکومت میں موجود گروہ کس قدر بے حس اور سفاک ہوتا ہے۔ اسے اس کی بھی پروا نہیں کہ وہ کس کی رقم کھارہے ہیں۔ یہاں زکوٰۃ فنڈ، بیت المال، یتیموں کا مال سب ہڑپ کرلیا جاتا ہے۔ اس قدر بے حسی ہے کہ کوئی پرسان حال بھی نہیں آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ آج کل تو شہباز حکومت وہی کام کررہی ہے جو عمران خان کررہے تھے۔ وہ بھی چور چور کا نعرہ لگاتے تھے۔ اب شہباز حکومت 12 سو ارب روپے اور ایک ارب 41 کروڑ روپے تو نکلوائے تاکہ غریبوں کو کچھ سکون مل سکے۔