اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

478

پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے اس نظام میں لاکھ خامیاں ہیں لیکن الیکشن کے ذریعے عوام کی رائے معلوم کرنے اور انہیں اپنے نمائندے منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیجنے کا ایک نظام بہرکیف موجود ہے جسے قومی اتفاق رائے سے زیادہ سے زیادہ فول پروف بنایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ یہی ہے کہ اس نظام کے تحت یا تو سیاسی جماعتیں برسر اقتدار رہی ہیں یا اس نظام کو سبوتاژ کرکے جرنیلوں نے اپنی آمریت ملک پر مسلط کی ہے۔ سول اور فوجی حکومتوں کا دورانیہ تقریباً برابر ہی ہے۔ بلکہ دیکھا جائے تو سول حکومتوں پر بھی فوج کی چھاپ نظر آتی ہے کیونکہ فوجی قیادت کو جسے اب اصطلاحاً اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے حکمرانی کا ایسا چسکا پڑگیا ہے کہ وہ سیاست سے دور رہ ہی نہیں سکتی۔ اس کے نیوٹرل ہونے کا جو پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اس وقت آرمی چیف اپنے منصب سے ماورا موجودہ حکومت کی جو معاونت کررہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ ذکر تو خیر برسبیل تذکرہ آگیا۔ ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ پارلیمانی جمہوریت کے موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ہی سیاسی جماعتیں اقتدار میں اپنی باریاں لیتی رہی ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے ان دونوں جماعتوں کے یکے بعد دیگرے برسر اقتدار آنے سے ملک میں دو جماعتی جمہوری نظام کا تصور ابھرا تھا اور بیش تر سیاسی جماعتیں پس منظر میں چلی گئی تھیں لیکن جب ان جماعتوں کی لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کا چرچا ہوا اور اس کے نتیجے میں ملک غریب سے غریب تر اور حکمران امیر سے امیر ترین ہوتے گئے تو پردے کے پیچھے بیٹھی ہوئی اسٹیبلشمنٹ نے قومی سطح پر ایک نیا سیاسی لیڈر متعارف کرانے کا فیصلہ کیا جو اگرچہ بیس بائیس سال سے سیاست کے میدان موجود تھا لیکن اس کی شنوائی نہیں ہورہی تھی۔ اسے 2014 میں بڑے اہتمام سے لانچ کیا گیا۔ میڈیا میں اس کے لیے وسیع پیمانے پر گنجائش پیدا کی گئی اور 2018 کے انتخابات میں اسے کرپٹ سیاستدانوں کے مقابلے میں ایک صاف ستھرے سیاستدان کی حیثیت سے پیش کیا گیا جس کی عوام نے پزیرائی کی۔ یہ تھے عمران خان نوجوانوں کے آئیڈیل، عوام کی امیدوں کے مرکز جن سے عوام نے بے شمار توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔ انہیں پارلیمانی جمہوریت کے موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے کامیابی دلائی گئی اور حکومت کی تشکیل میں جو کسر رہ گئی تھی وہ چھوٹی جماعتوں کا تعاون حاصل کرکے پوری کی گئی۔
عمران خان نے ساڑھے تین سال تک حکومت کی۔ ان کی حکومت تمام تر ’’شر‘‘ نہیں تھی اس میں کچھ اچھے کام بھی ہوئے خاص طور پر معیشت کو دستاویزی بنانے پر خصوصی توجہ دی گئی لیکن عمران حکومت کے خلاف پروپیگنڈا بہت زیادہ تھا۔ اپوزیشن نے پی ڈی ایم کی چھتری تلے ہنگامہ برپا کر رکھا تھا۔ عوام بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان اس پر ستم یہ ہوا کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بھی اختلافات پیدا ہوگئے اور ایک پیج پر ہونے کا تاثر ہوا میں تحلیل ہوگیا۔ ایسے میں اسٹیبلشمنٹ نے اپنے سر سے بوجھ اُتارنا مناسب سمجھا اور اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد لانے کا اشارہ کردیا۔ اپوزیشن اشارہ ملتے ہی سرگرم عمل ہوگئی۔ وفاداریاں خریدی گئیں یا تبدیل کرائی گئیں اور اپوزیشن نے دو تین ووٹوں کی اکثریت سے معرکہ سر کرلیا۔ یہ سارا عمل جمہوری انداز میں پارلیمانی روایات کے مطابق ہوا جن ملکوں میں پارلیمانی جمہوریت ہے وہاں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ حال ہی میں برطانوی وزیراعظم کو اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن وہاں نہ آسمان گرا نہ کوئی بھونچال آیا لیکن ہمارے ہاں تو یہ محسوس ہورہا تھا کہ قیامت برپا ہوگئی ہے۔ عمران خان بالکل ہتھے سے اکھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے اسے امریکی سازش قرار دیتے ہوئے جمہوری عمل ہی کا بائیکاٹ کردیا اور قومی اسمبلی کو اجتماعی استعفے پیش کرتے ہوئے سڑکوں پر آگئے۔ 25 مئی کو اسلام آباد میں ان کے لانگ مارچ کا جو حشر ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اگر بالغرض یہ امریکی سازش تھی تو اسمبلی میں بیٹھ کر اسے زیادہ مؤثر انداز میں ایکسپوز کیا جاسکتا تھا موجودہ قومی اسمبلی میں ’’رجیم چینج‘‘ کے بعد تحریک انصاف پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی تھی وہ حکومت کو تگنی کا ناچ نچاسکتی تھی۔ حکومت نے اپنی سابقہ کرپشن چھپانے کے لیے مفاد عامہ کے خلاف جتنی بھی قانون سازی کی ہے، اسمبلی میں تحریک انصاف کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہ تھا۔ عمران خان اسمبلی سے باہر فوری انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں اگر وہ یہی مطالبہ اسمبلی میں کرتے تو اس کو زیادہ محسوس کیا جاتا اور اتحادی حکومت کو اس کے آگے جھکنا پڑتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے اجتماعی استعفے تو پیش کردیے ہیں لیکن اس کے ارکان نہ اسپیکر کے سامنے پیش ہوئے ہیں نہ اپنے استعفوں کے تصدیق کی ہے ان کی خواہش ہے کہ یہ معاملہ اس طرح لٹکتا رہے اور وہ اسمبلی سے ملنے والے فوائد سمیٹتے رہیں۔ ایسے میں اسپیکر نے دس ارکان اسمبلی کے استعفے الیکشن کمیشن کو بھیج دیے ہیں اور الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی نوٹیفائی کردیا ہے تو تحریک انصاف کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ہے یہ سب کچھ اس کی توقع کے خلاف ہوا ہے وہ اس کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی بھی نہیں کرسکتی کہ استعفے اس نے خود پیش کیے ہیں۔ عجیب صورتحال ہے وہ اسمبلی میں جانا بھی نہیں چاہتی اور اسمبلی سے نکلنا بھی نہیں چاہتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا اعلان ہوا ہے تو تحریک انصاف نے ان میں حصہ لینے کا اعلان کردیا ہے اور پارٹی کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے یہ مضحکہ خیز اعلان سامنے آیا ہے کہ وہ ان نشستوں پر خود انتخاب لڑیں گے شاید یہی وہ صورت حال ہے جس کے بارے میں شاعر نے کہا ہے
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
کیسا پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
عمران خان پارلیمانی جمہوریت کے موجودہ نظام کو نہ رد کررہے ہیں نہ قبول کررہے ہیں وہ اسمبلی میں بیٹھنے کے لیے تیار نہیں لیکن اس کے ضمنی انتخابات کے لیے فوراً مسلز پھلاکر کھڑے ہوگئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان انتخابات میں کامیابی کے بعد وہ مستعفی ہوجائیں گے اور ازسرنو انتخابات کا عمل شروع ہوجائے گا جس پر پھر کروڑوں روپے کے وسائل خرچ ہوں گے۔ یوسف رضا گیلانی نے بڑی سادگی سے پوچھا ہے کہ جب یہ لوگ اسمبلی میں جانا نہیں چاہتے تو الیکشن کیوں لڑ رہے ہیں لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے خان صاحب کی سیاست نے پوری قوم کو چکراکر رکھ دیا ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اگر وہ فوری انتخابات چاہتے ہیں تو خیبر پختون خوا اور پنجاب اسمبلیاں تحلیل کردیں، عام انتخابات کی شرط خود پوری ہوجائے گی لیکن اس پر بھی وہ آمادہ نہیں اب اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ
اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا