دائرے کی تکمیل

547

تپتی گرمی اور خشک سالی سے تنگ بلوچستان کے عوام کے لیے اس مرتبہ مون سون کی بارشیں بھی ناقابل بیان مصائب لے کر آئی ہیں۔ بلوچستان کے اکثر علاقوں میں ان بارشوں نے تباہی مچادی ہے۔ سیلابی ریلے بڑی تعداد میں ہلا کتوں کا باعث بنے ہیں صوبے بھر میں طوفانی بارشوں اور سیلاب سے پیش آنے والے حادثات میں اموات کی تعداد 140 ہو گئی ہے، ساڑھے 13 ہزار مکانات متاثر ہوئے ہیں جبکہ بجلی کے 140 کھمبے گر چکے ہیں۔ تاریخ رقم کرنے والا مون سون کا چوتھا اسپیل بلوچستان کے جنوب مشرق اور وسطی علاقوں میں تباہ کاریوں کا باعث بن رہا ہے۔ شمال میں سب سے زیادہ متاثرہ ضلع قلعہ سیف اللہ کے دور افتادہ علاقے اور بلوچستان کے بلند ترین مقام کان مہتر زئی میں نظامِ زندگی مفلوج ہو گیا۔ پہاڑوں پر زندگی گزارنے والے حالات سے مجبور ہو کر شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔ بلوچستان کو خیبر پختون خوا اور پنجاب سے ملانے والی قومی شاہراہ N50 پر واقع صوبے کے بلند ترین صحت افزا مقام کان مہتر زئی پر ریکارڈ توڑ طوفانی بارش ہوئی ہے۔ پاکستان میں ذائقے اور مٹھاس میں شہرت رکھنے والے سیب، خوبانی اور چیری کاشت کرنا کان مہتر زئی کے مکینوں کا واحد ذریعہ معاش ہے مگر اب کاروبار اور سر کا سایہ بھی ان کے ساتھ نہیں رہا۔ محفوظ جگہ کی تلاش میں متاثرین نے میدانی علاقوں کی جانب نقل مکانی شروع کر دی ہے۔ سیلابی ریلہ کئی دیہاتوں میں سب کچھ بہا کر لے گیا، کئی فٹ اونچے سیلابی ریلے آبادی میں داخل ہوئے تو ہر طرف چیخ و پکار شروع ہوگئی، لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ کر بال بچوں کے ساتھ پہاڑوں پر پناہ لینے لگے۔ کتنے لوگ ریلوں میں بہہ گئے، کچھ پتا نہیں۔ صوبے میں سیلاب اور بارشوں سے 16 پل ٹوٹ چکے ہیں اور 670 کلو میٹر پر مشتمل 6 مختلف شاہراہیں شدید متاثر ہوئی ہیں جب کہ 2 لاکھ ایکڑ پر فصلوں کو نقصانات پہنچا ہے۔
جس وقت یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں اگرچہ سیلابی پانی اتر چکا ہے لیکن ہر طرف تباہی کی داستانیں پھیلی ہوئی ہیں۔ پاکستان میں جب بھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے یہ افواج پاکستان کے جوان ہیں جو آگے بڑھ کر آفتوں اور اپنے لوگوں کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں۔ سیلابی ریلے ہوں، زلزلے ہوں یا کوئی اور قدرتی آفت پاک فوج کے جوان اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے شدید خطرات میں ان مقامات پر پہنچتے ہیں، لوگوں کی جانیں بچاتے ہیں۔ بلوچستان میں بھی پاک فوج ایسی ہی امدادی سرگرمیوں میں مصروف تھی کہ دو اگست کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے مطلع کیا گیا کہ امدادی سرگرمیوں میں مصروف پاک فوج کا ایک ہیلی کاپٹر لاپتا ہوگیا ہے جس میں کور کمانڈر سمیت چھے افراد سوار تھے۔ بعد میں آئی ایس پی آر کی جانب سے بتایا گیا کہ بلوچستان کے ضلع خضدار میں لاپتا ہیلی کاپٹر کا ملبہ مل گیا۔ ہیلی کاپٹر میں سوار تمام چھے افراد شہید ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ہیلی کاپٹر کے حادثے کے شہداء میں کور کمانڈر 12 کور لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی سمیت ڈی جی پاکستان کوسٹ گارڈ میجر جنرل امجد، کمانڈر انجینئر 12 کور بریگیڈیئر محمد خالد، میجر سعید احمد، میجر محمد طلحہ منان اور کریو چیف نائیک مدثر فیاض شامل ہیں۔
مقدس مشن کے دوران شہید ہو جانے والے فوجیوں کے حادثہ نے پورے پاکستان کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ ہر جانب سے شہداء کے ورثاء سے اظہار تعزیت کیا جانے لگا۔ روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر لوگ اپنے جذبات کا اظہار کرنے لگے لیکن اس موقع پر عمران خان کی پی ٹی آئی کی جانب سے شہداء کا جس طرح مذاق اڑا گیا اور جس اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کیا گیا اس کی توقع کسی کو نہیں تھی۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ٹرولز نے اس موقع کو جس طرح اپنے گھنائونے اور گھٹیا مقاصد کے لیے استعمال کیا کسی مسلمان سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ شہداء کے بارے میں جو کچھ کہا گیا وہ ناقابل برداشت تھا جس سے شہداء کے ورثا کی ہی نہیں پوری فوج اور قوم کی دل آزاری ہوئی اور جذبات اس حد تک انگیز ہوئے کہ جب صدر عارف علوی نے شہداء کی تدفین میں شرکت کے ارادے کا اظہار کیا تو انہیں جنازے میں شرکت کرنے سے روک دیا گیا۔
دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اپنی فوج سے عقیدت اور محبت کا اظہار نہ کیا جاتا ہو۔ جب فوجی جوان ملک کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوجاتا ہے تب وہ کسی فرد کی نہیں ایک ہیرو کی موت ہوتی ہے۔ نسلیں جسے خراج عقیدت پیش کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ قومیں اپنے گمنام سپاہیوں تک کو بھی فراموش نہیں کرتیں اور ان کی یادگاریں تعمیر کرتی ہیں۔ پی ٹی آئی نے ان تمام حدود کو پار کر لیا ہے۔ پی ٹی آئی اور عمران خان کا جھگڑا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اور بعض جرنیلوں کے ساتھ ہے، فوج کے سیاسی کردار کے ساتھ ہے۔ یقینا فوج کے سیاسی کردار پر، حکومتوں میں مداخلت پر، ہائبرڈ سسٹم تشکیل دینے پر اور ایک پیج پر ہونے پر بات کی جاسکتی ہے اور کی جانی چاہیے اور کی جاتی رہی ہے۔ جب فوج سیاسی حکومتوں کے خلاف سازش کرکے انہیں ایوان اقتدار سے باہر نکالے گی، اپنا ہی ملک فتح کرے گی تو اس پر تنقید کی جائے گی۔ ایسا پاکستان میں ہوتا رہا ہے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی، ن لیگ اور دیگر جماعتوں کا ان حوالوں پر اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف اور شدید اختلاف رہا ہے لیکن فوج بحیثیت ادارہ سب کے لیے باعث تکریم رہی ہے۔ سرحد پر پہرہ دیتا جوان اور ملک وقوم کی حفاظت میں مصروف جنرل کو دیکھ کر سب کے سینے فخر سے پھول جاتے اور ہاتھ سلیوٹ کرنے کے لیے بلند ہوجاتے ہیں۔ باپ کی پھانسی سے لے کر قیدوبند کی صعوبتوں اور جلاوطنی تک کون سا زخم ہے جو محترمہ بے نظیر بھٹو نے جنرل ضیاء الحق سے نہ کھایا ہو، کون سی مصیبت ہے جو جنرل ضیاء الحق کے دور میں نہ دیکھی ہو لیکن جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے بعد جب ایک غیر ملکی صحافی نے اس حادثے پر ان کی رائے لی تو ان کا چہرہ سپاٹ تھا جس پر دور دور تک خوشی کا کوئی تاثر نہیں تھا۔ صحافی کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ موت کے بعد اب ضیاء الحق سے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں۔ جو اللہ کی مرضی تھی وہ ہوگئی ہے اس موقع کو ہم کوئی بات کرنے کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔ اس کے بعد دو مرتبہ محترمہ کی حکومت ختم کی گئی اور بالآخر وہ شہید کردی گئیں۔ ان کی شہادت میں اگرچہ جنرل پرویز مشرف کا نام لیا جارہا تھا لیکن اس موقع پر بھی اور بعد میں بھی زرداری اور بلاول نے کبھی فوج پر بحیثیت ادارہ تنقید نہیں کی۔ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کیا دومرتبہ انہیں جلاوطن کیا لیکن اس کے باوجود گزشتہ دنوں جب پرویز مشرف کی وطن واپسی کا معاملہ اٹھا تو میاں صاحب نے کہا کہ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔
عمران خان ایک ایسا فاشسٹ ذہن رکھتے ہیں جو ہر معاملے کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھتے اور برتتے ہیں۔ اپنی منزل کی راہ میں حائل کسی کردار کو وہ کسی بھی طرح کی رعایت حتی کہ اخلاقی اور منہ زبانی رعایت دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ وہ سب کچھ کچلتے ہوئے منزل کے حصول پر یقین رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے وہ اور ان کے ساتھی الیکشن کمیشن کے بارے میں کیسے کیسے جذبات یہاں تک کہ الیکشن کمیشن کو آگ لگانے تک کی بات کر چکے ہیں۔ جس پارلیمنٹ میں وہ اکثریت میں نہ ہوں وہ اسے چوروں اور لٹیروں کی آماج گاہ قرار دیتے ہیں۔ عدلیہ اور ججوں کو عوام کی نظر میں بے توقیر کرنے اور جوتے پڑوانے میں وہ کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ مخالفین کو چور ڈاکو، لٹیرے، غدار، ڈیزل، چیری بلاسم اور نہ جانے کیا کیا کہنا ان کا معمول رہا ہے۔ جب سے وہ آئینی اور قانونی طریقے سے حکومت سے نکالے گئے ہیں جرنیلوں کو نیوٹرل، میر جعفر اور میر صادق اور جانور کہتے آئے ہیں۔ فوج بہ حیثیت ادارہ ان کی گالیوں سے محفوظ تھی اب یہ دائرہ بھی انہوں نے مکمل کردیا ہے۔