لندن نہیں جاؤں گا

679

کچھ دن سے ایک پاکستانی فلم کے اشتہار چلتے نظر آ رہے ہیں جس کا نام ہے لندن نہیں جاؤں گا فلم کا نام سن کر ایک خیال شدت سے ذہن میں آ رہا ہے ہمارے کراچی میں ایک صاحب تھے جو کراچی کے مسائل پر آواز بن کر اٹھے تھے کراچی والوں کے مسائل پر انہوں نے آواز اٹھائی پہلے تو طلبہ تنظیم بنائی پھر وہاں سے عملی سیاست میں قدم رکھا کراچی والوں نے دل کھول کر ان کا ساتھ دیا محبت دی اور انہوں نے کراچی کو کیا دیا لکھتے ہوئے دل خون کے آنسو رو رہا ہے، لسانیت کے نام پر ہنگامے، ہڑتالیں، قتل و غارت گری احتجاج کے نام پر ہڑتالیں اور ان ہڑتالوں کے نتیجے میں ہونے والے معاشی نقصانات، جانی نقصان کا حساب الگ ہے۔ 1988 سے حساب لگائیں تقریباً تین دہائیوں نے ایک شقی القلب شخص نفسیاتی و ذہنی مریض کے ہاتھوں کے ہاتھوں ہر طرح کے نقصانات اٹھائے ہیں۔
کتنے نوجوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، کتنے لوگ گمشدہ ہو گئے، کتنے ہی لوگ ہنگاموں ہڑتالوں کی وجہ سے فائرنگ کی زد میں آئے اور جان سے گئے۔ وہ صاحب جو جو مسائل لے کر اٹھے تھے وہ آج بھی کراچی میں جوں کے توں موجود ہیں ان کی اٹھائی ہوئی آواز پر لوگوں نے لبیک ہی اسی لیے کہا تھا کہ کراچی کے عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے تھے۔ کراچی کے لیے تو وہ نہ خود کچھ کر سکے نہ ان کی جماعت کے تحت بننے والے ایم این اے ایم پیز اور میئر ہی کچھ کر پائے ہاں فائدہ ہوا تو ان ہی لوگوں کو جو ہر دور حکومت میں اپنے بینک اکاؤنٹ بڑھاتے ہی چلے گئے کبھی منسٹر بن کر تو کبھی لوٹے بن کر تو کبھی بکاؤ مال بن کر اور کراچی کے عوام کو کیا ملا صرف لارے، تسلیاں اور سب ٹھیک ہوجائے گا کا لالی پاپ۔
کراچی کی بدقسمتی ہے کہ مٹنے کا نام ہی نہیں لیتی سب کھا رہے ہیں کما رہے ہیں ان وزیروں کی اپنی اولادیں لندن اور امریکا میں زیر تعلیم ہیں اور عام لوگوں کی اولادوں کو سرکار کی طرف سے ایک سہولتوں سے مزین اسکول تک میسر نہیں۔ ان کا علاج باہر ممالک میں ہوتا ہے اور عوام کو سرکاری اسپتال میں ایک بستر تک نہیں ملتا۔ کتنی مائیں ہیں جو اسپتال کے دروازوں پر بچوں کو جنم دے دیتی ہیں کہ اندر اسپتال میں بیڈ موجود نہیں ہے۔
لکھنے پر آؤں تو کاغذ قلم کم پڑ جائے مگر یتیم شہر کے مسائل پورے نہیں لکھ پاؤں گی۔ گندگی کے ڈھیر، سیورج کے مسائل، صاف پانی کی عدم فراہمی، کے الیکٹرک کی من مانیاں، ٹرانسپورٹ کے نام پر چنگ چی رکشوں میں دھکے کھاتی خواتیں، تعلیم کے نام پر دھبے کی صورت سرکاری اسکول، نالوں میں تیرتی بچوں اور ماؤں کی لاشیں یہ سارے تحائف کراچی کے عوام کو دے کر وہ صاحب لندن شفٹ ہو گئے جب کہ انہیں کہنا چاہیے تھا لندن نہیں جائوں گا مگر نہیں صاحب وہ کیا نیلسن منڈیلا تھے جو اپنی مجبور عوام کے لیے جیل کاٹتے وہ تو لندن چلے گئے اور اپنے پیچھے جو اپنی باقیات چھوڑ گئے وہ آج تک ہر حکومت کے ساتھ کٹھ پتلی بن کر اپنے ذاتی اثاثے بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں کراچی تباہ ہوتا ہے تو ہوتا رہے ان کی بلا سے۔
اب وہ وقت ہے کہ کراچی کے عوام کو اس شہر کی حالت سدھارنے کے لیے کسی لندن والے کا آسرا کرنے کے بجائے ایسی قیادت کو چننا ہوگا جو کراچی کا بیٹا ہے، 120 گز کے گھر میں رہتا ہے، اس کی کوئی زمین جائداد نہ یہاں ہے اور نہ بیرون ملک میں اس کے اثاثے ہیں جو کچھ ہے عوام کے سامنے ہے اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی یہ مرد مجاہد سندھ سرکار کے گلے میں ہڈی بن کر اٹکا رہتا ہے۔ کراچی کے لیے آواز اٹھاتا ہے اور اپنے عوام کے لیے بات منوا کر ہی مانتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد بھی وہ شیر کراچی اختیارات کا رونا نہیں روئے گا وہ کچھ کر کے دکھائے گا بس اب کراچی کے عوام کو اس کا ساتھ دینا ہے اور ترازو پر مہر لگانی ہے۔