قیام پاکستان میں سندھ کا تاریخی کردار

498

پون صدی کی قبل ماہ رمضان المبارک 27 ویں شب قدر جو 14 اگست 1947ء کو تھی۔ دنیا کے نقشہ پر ایک نظریاتی اسلامی ریاست پاکستان نے قائداعظم محمد علی جناح اور ان کی ٹیم کی پرامن کاوشوں سے جنم لیا۔ یہ دنیا کی واحد مملکت تھی اور ہے جس نے نظریہ اسلام کے بطن سے جنم لیا۔ دنیا میں اس جیسی کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔ یہ عطیہ خداوندی کی جو منزل ملی اس پر ہی سفر کے تسلسل کا حصہ قرار پائی جب ایک مظلوم مسلمانوں کے قافلہ کو راجا داھر کے دور حکمرانی میں سندھ میں بحری قزاقوں نے لوٹ لیا تھا اور اس قافلہ کی ایک مظلوم عورت کی آواز خلیفہ ولید بن عبدالمالک کے کان تک پہنچی تو انہوں نے راجا داھر کو مظلوموں کی داد رسی کرکے قزاقوں کو قرار واقعی سزا دینے کا حکم دیا جو اس نے سنی ان سنی کردی۔ تو پھر خلیفہ ولید بن عبدالمالک نے عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کو مظلوموں کی مدد کرنے اور انہیں بازیاب کرانے کا حکم دیا جس پر اس نے لبیک کہتے ہوئے اسلامی لشکر تیار کرنے اور محمد بن قاسم کی قیادت میں سندھ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا یوں جی ہاں وہ بھی ماہ رمضان تھا اس کی دس تاریخ کو روزہ دار مجاہدین پر مشتمل ایک لشکر سال 93 بمطابق 712 کو سندھ پر حملہ آور ہوا۔ اور نصرت ایزدی سے سندھ کو فتح کر ڈالا اور راجا داھر بھاگ کھڑا ہوا۔ مظلوم عورت کی آہ اور سندھ پر محمد بن قاسم کی یلغار اور فتح یابی نے برصغیر میں اسلامی ریاست کے قیام کی پہلی اینٹ رکھی جو وہ برصغیر میں اسلام کی باضابطہ آمد اور قیام پاکستان میں ماہ رمضان کا مشترک ہونا معمولی بات سندھ نے باب الاسلام کا اعزاز حاصل کیا۔
سوا سو سال عرب مسلمان سندھ پر حکمرانی کرتے رہے پھر مختلف مسلم حکمرانوں نے برصغیر پر حکمرانی کا شرف حاصل کیا۔ جب مسلم حکمران اسلام کے سبق کو بھول کر اُن خرابیوں کا شکار ہوگئے جو غلامی کی طرف لے جاتا ہے تو اس وقت کی سپر پاور برطانیہ جس کی مملکت میں کہتے ہیں کہ سورج غروب نہیں ہوتا تھا اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے کاروبار کی صورت اس خطہ برصغیر پر غیر محسوس طریقہ سے قدم جمانا شروع کیے۔ 1843 میں چارلس نیپیئر کی قیادت میں برطانوی لشکر سندھ کے غداروں کی مدد سے سندھ پر حملہ آور ہوا۔ حیدر آباد جو اس وقت سندھ کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا فتح کرکے سندھ میں برطانوی سلطنت کا راج قائم کردیا۔ سندھ ان دنوں علم و ادب کا گہوارہ ہوا کرتا تھا۔ سرچارلس نیپیئر نے اپنی ڈائری میں یہ الفاظ لکھے تھے جو اب بھی محفوظ ہیں ’’ہمیں سندھ پر قبضہ کرنے کا کوئی حق نہیں پھر بھی ہم ایسا کریں گے‘ اور یہ ایک فائدہ مند اور رحم دلانہ بدمعاشی ہوگی‘‘۔ یہ الفاظ ہی نہ تھے ایک سوچ بھی تھی فائدہ اٹھانے اور بدمعاشی کرنے سندھ پر قبضہ کے صرف 5 سال بعد جب انگریز حکمران کے قدم جم گئے اور حر تحریک پیر صاحب پگارا کی قیادت میں ثمربار نہ ہوسکی تو برطانوی حکمران نے عیار ہندو کمیونٹی سے سازباز کرکے سندھ ایکٹ کی منظوری 1848ء یہ بدترین اور ظالماً فیصلہ تھا جس کے تحت سندھ کی جدگانہ حیثیت کو ختم کرکے اس کو دور افتادہ علاقہ ممبئی سے ملادیا گیا اور اس کی کمشنری قرار دیا گیا۔ صوبہ سندھ کو یہ سزا باب الاسلام ہونے کے ناتے بھی دی گئی۔ سندھ کی اسلام سے والہانہ وابستگی اور حر تحریک کی صورت مجاہدانہ کردار، قائدانہ صلاحیت کی روک تھام کے لیے کیا گیا یہ صوبہ سندھ کی تعلیم و ترقی پر ایک قدغن لگانے کی تدبیر بھی تھی۔ سید امداد محمد شاہ فرزند جی ایم سید نے راقم کو بتایا تھا کہ سندھ کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بھاری اخراجات کے ساتھ ممبئی کا دور دراز کا سفر کرنا پڑتا تھا یوں تعلیم کے میدان میں سندھ پیچھے ہوگیا اس ظالمانہ آمرانہ اور عقل دشمن فیصلے کے خلاف 1927ء میں قائداعظم محمد علی جناح کی زیر صدارت مسلم زعما کرام کا اجلاس ہوا جس میں اس فیصلے کی مذمت کی گئی اور سندھ کی ممبئی سے علاحدگی کی ایک قرار داد منظور کی گئی یہ برطانوی سامراج کے خلاف بغاوت کی پہلی چنگاری تھی جو سندھ سے بھڑکی اور برطانوی سامراج نے بھانپ لیا۔ عوام خواص سندھ کے تیور اچھے نہیں سو اس نے اگست 1935ء میں برطانوی بادشاہ کے دستخط سے گورنمنٹ آف انڈیا کے ایکٹ کی شق 46 میں ترمیم کرکے سندھ کو جداگانہ صوبہ تسلیم کیا۔ 88 سال بعد جدوجہد مسلسل سے بالآخر یکم اپریل 1936ء کو سندھ کو صوبہ کا درجہ مل گیا۔ مگر سندھ میں آزادی کی چنگاری سرد نہ ہوسکی۔ انگریز حکمران نے 1936ء میں جب پہلی سندھ اسمبلی وجود میں آئی اور اس کے انتخابات میں مسلمانوں کو 40 اور ہندوئوں کو 20 سیٹیں ملیں تو جانا کہ صوبہ سندھ ریت کی طرح اُن کے ہاتھ سے پھسل گیا۔
1938ء کو جی ایم سید مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تو سندھ میں مسلم لیگ کو نئی زندگی مل گئی۔ اکتوبر 1938ء کو کراچی میں صوبائی مسلم لیگ کا اہم اجلاس ہوا جس میں قائداعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، فضل الحق جیسے اکابرین دیگر رہنمائوں کے ساتھ شریک ہوئے اور 21 نکات کی قرارداد پاس ہوئی جس کی پانچویں قرار داد میں کہا گیا کہ ہندو اور مسلم دو الگ الگ قومیں ہیں اس لیے مسلم اکثریت کے علاقہ پر مشتمل نیا خطہ تشکیل دیا جائے۔ یہ سب سے پہلی قرار داد تھی جس میں نظریہ کی بنیاد پر قوم کی تقسیم اور خطہ کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ دو قومی نظریہ تھا یہ قرار داد پاکستان کا ابتدائی خاکہ تھی جس کو سنواکر 23 مارچ 1940 کو لاہور میں قرار داد پاس کی گئی جس کو قرار داد پاکستان کا باضابطہ نام دیا۔ اس لاہور کی قرار داد کی تائید میں سندھ اسمبلی نے مارچ 1943 میں ایک قرار داد پاس کرکے آزادی کے مطالبہ کے پلڑے کو بھاری کیا۔ 26 جون 1947ء کو سندھ اسمبلی کا خصوصی اجلاس ہوا اور سب سے پہلے صوبہ سندھ نے پاکستان میں شمولیت کا بھی اعزاز حاصل کیا۔ قیام پاکستان کی تحریک میں جی ایم سید کا حصہ بڑھ چڑھ کر رہا مگر کھوٹے سکوں نے انہیں دھکیل کر دور کردیا اور اقتدار کی منزل انہیں ملی جو شریک سفر بھی نہ تھے۔ سندھ کے معروف تاریخ داں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی گواہی اوراق پر موجود ہے کہ جی ایم سید اس گھروندے کے بکھرنے کا دکھ کرتے تھے اور وہ اس کا اظہار بھی کیا کرتے تھے۔ جس مملکت کو انہوں نے بنانے میں خون پسینہ ایک کیا ابن الوقت نے کیا حشر کر ڈالا۔
(جاری ہے)