چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر (آخری حصہ)

490

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 31دسمبر 2020 کو ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اس کے اندر عالمی سطح پر نسل پرستی، نسلی امتیاز، زینوفوبیا اور متعلقہ عدم رواداری کے خاتمے کی خاطر ٹھوس کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ زینو فوبیا دراصل اجنبی یا غیر ملکی سے خوف و نفرت کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ہے جو مظلوم تارکین وطن کے ساتھ کیے جانے والے ناروا سلوک پر من وعن صادق آتی ہے۔ اس کی مثال یوروپ میں شامی مہاجرین اور ہندوستان میں روہنگیا پر مظالم ہیں۔ یہ قوم پرستی ہی کی ایک شکل ہے۔ عصرِ حاضر میں ہر ملک اس کا کلمہ پڑھتا ہے اور یہ وبا کورونا سے بھی زیادہ خطرناک ہوچکی ہے۔ فی الحال اقوام متحدہ میں ارکان ممالک کی تعداد193 ہے۔ ان میں سے 29 کو ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھا گیا ہے جو اپنے آپ میں ایک امتیازی سلوک ہے۔ اس کے برعکس دوسرا امتیازی معاملہ پانچ کو ویٹو کا حق دے دیا گیا ہے یعنی ان میں سے ہر ایک تمام ممالک کی متفقہ تجویز کو بہ یک جنبش بلاتکلف مسترد کرسکتا ہے۔ خیر مذکورہ قرارداد کا مقصد اس قدر مقدس اور پاکیزہ تھا کہ اسے اتفاق رائے سے منظور ہوجانا چاہیے تھا لیکن 44ممالک نے اپنے آپ کو اس سے دور رکھا۔ اس مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی مخالفت کرنا چاہتے تھے لیکن بدنامی کے ڈر سے اس کی جرأت نہیں کرسکے لیکن 14ممالک اس قدر ڈھیٹ تھے کہ انہوں کسی لعنت وملامت کی پروا کیے بغیر اس کی مخالفت کرکے یوروپ کے خونیں پنجے کو بے نقاب کردیا۔
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو
ہوَس کے پنجۂ خْونیں میں تیغِ کارزاری ہے
رائے شماری کے نتائج جاننے سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ فی الحال دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ ایک ترقی یافتہ اور دوسرے پسماندہ۔ یہ پسماندہ ممالک مزید دوحصوں میں منقسم ہیں۔ ایک ترقی پزیر اور دوسرے غیر ترقی پزیر یعنی حقیقی ناقابل ِ اصلاح پسماندہ۔ ترقی پزیر گویا وہ پسماندہ ممالک ہیں جو بتدریج اپنی پسماندگی کو دور کرکے ترقی کررہے ہیں اور باقی لوگ اپنی پسماندگی پر مطمئن ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک مالی اعتبار سے آسودہ حال ہیں۔ ان کی آسودگی کی دو تاریخی وجوہات ہیں۔ اول تو یوروپی ممالک نے نشاۃ الثانیہ کے بعد بزورِ قوت دنیا بھرکے ملکوں میں اپنی نوآبادیات قائم کیں۔ وہاں کی صنعتوں کو تباہ کیا جیسے ہندوستان میں ریشم کے کارخانے جن کا ساری دنیا میں غلبہ تھا۔ وہاں کے قدرتی وسائل کو لوٹ کر اپنے ملک میں لے جانے کے لیے ریل کا جال بچھایا اس کی مثال بھی انڈین ریلوے ہے اور اس لوٹ کھسوٹ سے اپنے ملک خوشحال کو بنایا اور اپنے حریفوں کو تباہ وبرباد کردیا۔
بیکاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات؟
اس کی دوسری تاریخی وجہ امریکا جیسے ممالک میں جاکر وہاں کے مقامی لوگوں کا قتل عام کرکے انہیں ختم یا کمزور کردیا ہے۔ اس کے بعد افریقا جیسے غریب ممالک سے لوگوں کو وہاں لے جاکر غلام کی حیثیت سے غیر انسانی استحصال ہے۔ آگے چل کر ان کے حقوق بحال کیے گئے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ آج بھی سفید فام نسل ان کو حقیر سمجھتی ہے اور ان پر وقتاً فوقتاً ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ ماضی میں مغربی گدھ طاقت کے زور پر لوٹ مار اور استحصال کیا کرتے تھے فی الحال ایک استحصالی عالمی معاشی نظام کی مدد سے یہ کام ہورہا ہے۔ عالمی بینک نے ترقی پزیر ممالک کے حکمرانوں کو رشوت دے کر اپنے قرض کے جال میں اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ ان کے ذریعہ نادانستہ طور پر عام لوگوں کو معاشی جبر استحصال کی چکی میں پیسا جاتا ہے۔ ان کو برضا و رغبت غیر ضروری اسلحہ، منشیات اور ٹیکنالوجی کی فروخت کرکے اپنے جال میں جکڑ کر رکھا جاتا ہے۔
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات
اس ’نسل پرستی، نسلی امتیاز، زینوفوبیا اور متعلقہ عدم رواداری‘ کی گھناونی تاریخ پر پردہ ڈالنے کے لیے خوشنما نظریات کا جال پھیلایا گیا۔ ساری دنیا کو یہ باور کرایا گیا کہ مغربی تہذیب و تمدن، عادات و اطوار اور اقدار ونظریات کے سبب یہ ترقی ممکن ہوسکی۔ مغرب کے سیاسی نظریہ جمہوریت کو متبرک و مقدس بناکر پیش کرنے کی خاطر دنیا کی ہر خوبی کو اس سے منسوب کردیا گیا۔ اظہار رائے کی آزادی، مساوات اور انصاف پسندی وغیرہ کو اس کی جاگیر بنادیا گیا حالانکہ آج بھی جمہوریت نواز ممالک ان اقدار کے معاملے میں تفریق و امتیازی کا شکار ہیں اور حسبِ ضرورت انہیں پامال کیا جاتا ہے لیکن جمہوریت خوشنما چادر اس جبر و استبداد کو ڈھانپ دیتی ہے۔ اس نظریہ پر سوال اٹھانے والوں یا اسے چیلنج کرنے والوں کو عدم رواداری کا علمبردار، انتہا پسندی کا شکار اور دہشت گرد کے پیروکار جیسے القاب سے نوازہ جاتا ہے جو اپنے آپ میں عدم رواداری کا اظہار ہے۔ اس سحر کا ذکر علامہ نے یوں کیا تھا
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سْلا دیتی ہے اْس کو حْکمراں کی ساحری
کسی بھی فرد یا قوم کی حقیقت کا اظہار اس کے بلند بانگ دعووں سے نہیں بلکہ عمل سے ہوتا ہے اس لیے کہ زبان بہ آسانی جھوٹ بولتی ہے مگر عمل دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیتا ہے ویسے کے قلب میں پوشیدہ عزائم پھر بھی عیاں نہیں ہوتے اس کے باوجود عمل زیادہ قابلِ اعتبار ہے۔ اقوام متحدہ کے مذکورہ اجلاس میں رائے شماری نے مغرب کی قلعی کھول دی اور بلی بے ساختہ تھیلی سے کود کر باہر آگئی۔ مغرب کی ترقی یافتہ جمہوری ممالک سے توقع تھی کہ وہ ’نسل پرستی، نسلی امتیاز، زینوفوبیا اور متعلقہ عدم رواداری کے خاتمے کی خاطر ٹھوس کارروائی‘ میں پیش پیش ہوں گے مگر الٹا ہوگیا۔ ان کے اندر چھپے وحشی درندے نے ازخود اپنی نقاب نوچ کر پھینک دی اور اصلی چہرہ ظاہر کردیا۔ اس کی مخالفت کرنے والوں میں نام نہاد ترقی یافتہ مغربی جمہوریت کے سرخیل امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، نیدرلینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا اور اسرائیل شامل تھے۔ اس طرح وہ علامہ کے اس شعر کی عملی تفسیر بن گئے۔
تْو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہْوری نظام
چہرہ روشن، اندرْوں چنگیز سے تاریک تر!
مغرب کے نام نہاد ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ مشرقی یورپ کے کچھ ممالک اور افریقا کے دوچار باج گزار نیزچند نامعلوم جزیروں کو ملا کر ایک درجن سے زیادہ لوگوں نے اپنی مخالفت درج کرائی۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ممالک ’عالمی سطح پر نسل پرستی، نسلی امتیاز، زینوفوبیا اور متعلقہ عدم رواداری کے خاتمے کی خاطر ٹھوس کارروائی‘ کے حق میں نہیں ہیں اور نہیں چاہتے کہ ان برائیوں سے عالمِ انسانیت پاک ہو۔ اس فہرست کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل اور امریکا کا سفید فام ہو یا جرمنی و فرانس کا۔ برطانیہ اور آسٹریلیا کا جمہوریت نواز ہو یا نیدرلینڈ و کینیڈا کا بظاہر یہ بہت مختلف نظر آتے ہیں مگر ان کے اندر ایک ہی روح کارفرما ہے۔
وہ 44ممالک جنہوں نے شرما حضوری میں مخالفت تو نہیں کی مگر غیر حاضر رہے ان میں سے بھی بیش تر کا تعلق اور یورپ کی ترقی یافتہ برادری سے ہے۔ ان کی جمہوری اقدار انہیں نسل پرستی کے خاتمہ کی خاطر جدوجہد کرنے پر آمادہ نہیں کرسکی اور تعجب ہے کہ ان میں نیوزی لینڈ بھی شامل ہے۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب مغرب کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اقوام متحدہ کی مذکورہ تجویز کے خلاف رائے دینے والے یا غیر حاضر رہنے والوں میں چند مفاد پرست افریقی ممالک نے بھی اس کا ساتھ دیا جبکہ وہ نسلی امتیاز کے سب سے زیادہ شکار ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس اسلامی دنیا کو بدنام کرنے کے لیے مغرب کے دانشورا آسمان اور زمین کے قلابے ملا دیتا ہے اس میں سے کوئی غیر حاضر نہیں تھا اور کسی نے مخالفت نہیں کی۔ یہ حسن اتفاق نہیں بلکہ اس گئی گزری حالت میں بھی اپنی دینی اقدار کا پاس و لحاظ ہے کہ مخالفین اور منافقین کی صف میں ایک بھی مسلم ملک نہیں تھا۔ اس کے باوجود عالمی میڈیا کی نظر میں وہ وحشی اور غیر تہذیب یافتہ پسماندہ ہیں۔ مغرب کا دوغلاپن اور اس کے بلند بانگ دعووں کی یہ حقیقت ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی نے ان کی اندھی عقیدت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنارکھا ہے اور دن رات اس کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان رہتا ہے ایسے لوگوں کا علاج لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر رائے شماری نے مغربی ممالک اور ان کے اقدار و نظریات کو پوری طرح بے نقاب کردیا ہے۔ ویسے حکیم الامت نے برسوں پہلے یہ نقاب کشائی کردی تھی لیکن ان کے اشعار کا استعمال بھی سمجھنے سمجھانے اور عملدرآمد کے بجائے زیب داستاں کے لیے زیادہ ہوتا ہے
یورپ میں بہت، روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات