محرم الحرام، حرمت و حریت والا مہینہ

753

اسلام میں حرمت والے مہینوں کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے چار حرمت والے مہینوں میں شامل یہ مہینہ اسلامی تاریخ کی اہم و انقلابی واقعات کا تسلسل ہے اسلامی مقدس شخصیتوں کے حوالے سے خلیفۃُ الرسولؐ دوم سیدنا عمر فاروقؓ اور نواسہ رسولؐ سیدنا حسینؓ کی المناک شہادت و حریت کی داستان کی تاریخ ہے۔ حرمت والے مہینوں کی یہ عظیم دو شہادتیں اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ اپنے کردار و سیرت و اسلام و حق کی سربلندی کے لیے قیامت تک کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ رہیں گی۔ اسلام دراصل شہادتوں، قربانیوں کی تاریخ ہے، صحابہ کرامؓ، خلفائِ راشدینؓ، اہل بیتؓ و دیگر کی قربانیوں و لہو سے اسلام زندہ و تابندہ ہے۔ ان عظیم ہستیوں کے ایام دراصل ہمیں اسلام کی تاریخ کی یاد دہانی کراتے ہیں ان مقدس ہستیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ ان کی سیرت و کردار کو اپنے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنانا ہے۔ آج ملک جس خطرات میں گھرا ہوا ہے اس میں دیگر خطرات کے ساتھ ہی فرقہ وارانہ تنازعات ہیں جو فرقہ وارانہ فسادات و تشدد کی شکل بھی اختیار کرلیتے ہیں باہمی مسلکی اختلافات سے دشمن قوتیں ہمیشہ فائدہ اٹھاتی رہی ہیں۔ اسلامی ممالک میں افتراق و انتشار کو ہوا دینے میں فرقہ واریت بھی سرفہرست ہے جس کے باعث اسلامی یکجہتی اور امت کے تصور کو نقصان پہنچا ہے اور ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں جن سے فرقہ واریت کو تقویت پہنچی ہے۔ محرم الحرام کا مہینہ اپنی حرمت کے حوالے سے مقدس مہینہ ہے جس کا تقاضا ہے کہ باہمی اخوت، رواداری، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور انسانی جان و مال کی حرمت کو ہر قیمت پر برقرار رکھا جائے جس کے لیے ہمارے مذہبی رہنما، علما و ذاکرین کا کردار سرفہرست اور اہم ہے کچھ عرصہ قبل باہمی رواداری و فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے کئی قابل عمل تجاویز حکومتی و عوامی سطح پر آتی رہی ہیں ان میں حکومتی سطح پر تمام مکاتب فکر کے علما کرام کی تجاویز کی روشنی میں ایک نیشنل ایکشن پروگرام کے نام سے حکومتی سطح پر متفقہ نکات تشکیل دیے گئے تھے لیکن یہ نہایت بدقسمتی ہے کہ حکومت اس قسم کے اجلاس محض وقتی ضرورت کے تحت بلاتی ہے اور روایتی بیانیہ و نکات تشکیل دے کر میڈیا میں تشہیر کی جاتی ہے لیکن عملی طور پر مستقل بنیادوں پر کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جاتے تا کہ جلسہ جلوس مجالس وغیرہ کے تحفظ اور امن عامہ برقرار رکھنے کے لیے ایک مستقل لائحہ عمل موجود ہو جس کی ہر فرقہ پابندی کرے کیوں کہ دیکھا گیا ہے کہ حکومتی اجلاسوں میں طے ہونے والے معاملات و واقعات و ضابطہ اخلاق پر پابندی نہیں ہوتی جس کے باعث معمولی تنازع بڑھ کر فرقہ وارانہ اختلافات کو بھڑکا دیتا ہے جس سے باہمی ٹکرائو و فرقہ وارانہ تشدد کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ ماضی کے ان تمام اقدامات پر نظرثانی کرے اور تجربات کی روشنی میں اس کی اصطلاح کرے تا کہ شہر میں امن و باہمی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا کو برقرار رکھا جاسکے اور قیام امن کا سلسلہ مضبوط ہو اس کے ساتھ ہی محراب و منبر کو بھی فرقہ وارانہ تقاریر سے پاک رکھا جائے اور اس کے تقدس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں سے باہمی اتحاد و اتفاق کا درس دیا جائے کیوں کہ جن مقدس شخصیتوں کے نام پر محراب و منبر کی رونق سجائی جاتی ہے اس کا تقاضا ہے کہ یہاں سے صرف اسلام کی سربلندی، امام و قافلہ حسینی کی عظمت و حریت، معرکہ حق و باطل کے لیے قربانی، امت کو ایک اور نیک کرنے کا عزم کا درس دیا جائے۔ فرقہ وارانہ تنازعات کے خاتمے کے لیے علما کرام کا ہی دینی و بنیادی فریضہ ہے۔ ہمارے علما کرام و دینی جماعتوں نے ہمیشہ اس حوالے سے تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کا قیام بھی یہاں اسلام کی سربلندی اور اسلامی نظام حیات کی تشکیل کے لیے ہوا تھا اور تحریک پاکستان کے دور میں جو اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ ہوا تھا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اتحاد و یکجہتی ہی وہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ فرقہ وارانہ تنازعات کو علمی طور پر طے کرنے کے لیے ہماری تاریخ میں 22 متفقہ نکات کی صورت میں ایک دستاویز موجود ہے جس پر شیعہ، سنی دیگر تمام مکاتب فکر کے علما کرام کے دستخط موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی دیگر وقتاً فوقتاً ہونے والی میٹنگوں کے منٹس میں طے کیے جانے والے اہم نکات موجود ہیں۔ ان سب سے رہنمائی کی جائے تو یہ مفید اور کارآمد ثابت ہوں گے۔ راقم الحروف بار بار محض اس لیے حوالے دے رہا ہے کہ موجودہ دور میں جو حالات ہیں ان کا تقاضا ہے کہ بیرونی و اندرونی سازشوں سے ہوشیار رہا جائے اور ہر ممکن کوشش کی جائے کہ باہمی رواداری و ہم آہنگی کو درپیش تمام ممکنہ خطرات کا سدباب کیا جائے تا کہ وطن عزیز کی سالمیت و بقا کو کوئی ٹھیس نہ پہنچے۔ راقم الحروف اس سلسلے میں قومی میڈیا کے کردار کو بھی اہم سمجھتے ہوئے پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے ذمے داران سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ غیر ذمے دارانہ طرز عمل سے اجتناب کریں اور فرقہ وارانہ، منافرت آمیز، بیانات، مضامین و تقاریر کو میڈیا کی زینت نہ بنائیں اور اس ضمن میں میڈیا تنظیموں سی پی این ای اور اے پی این ایس و دیگر کو میڈیا نشریات کے لیے خصوصی ضابطہ اخلاق بنانا چاہیے۔ راقم الحروف بھی اپنی چند تجاویز پیش کرنا ضروری سمجھتا ہے اور توقع رکھتا ہے کہ حکومت، علما کرام و میڈیا ان تجاویز پر توجہ دیں گے۔
تجاویز:۔ مذہبی رواداری برقرار رکھنے کے لیے ہر مکتبہ فکر کے نمائندوں پر مبنی کمیٹیاں قائم کی جائیں اور متعلقہ علاقوں میں امن وامان کے لیے کام کریں، حکومتی ادارے سرپرستی کریں۔
مذہبی تقاریر و پروگرام کے لیے لائوڈ اسپیکر کے غلط و بے تحاشا استعمال پر پابندی عائد کی جائے صرف حکومت و علما کی متفقہ منظوری سے استعمال کیا جائے۔
فرقہ وارانہ نعرے، شناخت، جھنڈے، چاکنگ کو کنٹرول کیا جائے۔
منظور کیے جانے والے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر سخت ایکشن لیا جائے۔