کنٹینرز لگنے کے باعث کراچی کے شہری تین دن کے لیے محصور ہوگئے

638

کراچی: محرم الحرام کے دوران کنٹینرز لگنے کے باعث کراچی کے شہری تین دن کے لیے محصور ہوگئے، جلوسوں کی گزر گاہ ایم اے جناح روڈ، ایمپریس مارکیٹ، ریگل چوک اور پریڈی اسٹریٹ سے لیکر کھارادر تک کا علاقہ مکمل طور پر سیل،3 دن کے لیے ڈبل سواری پر پابندی،موبائل سروس بند،گرین لائن بس سروس،پیپلز بس سروس(ریڈبسیں) کی سہولت سے بھی 3دن کے لیے کراچی کے شہریوں کو محروم کر دیا گیا ہے۔

ایم اے جناح روڈ سے متصل علاقوں میں کرفیو کا سماں، وہاں کے مکینوں تک کو نقل و حرکت کی اجازت نہیں ہے، تمام گلیوں کو کنٹینرز کی مدد سے بند کردیا گیا ہے جبکہ گزر گاہ پر پولیس اور رینجرز کے اہلکار تعینات ہیں جس کے باعث شہر دوحصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔

پولیس اہلکاروں کو پابند کیا گیا ہے کہ سیل کیے گئے راستوں سے نہ تو کوئی جلوس میں شامل ہو سکے گا اور نہ ہی ان راستوں سے کسی کو باہر جانے کی اجازت دی جائیگی۔ جلوس کی گزر گاہ پر موجود عمارتوں پر پولیس اور رینجرز کے نشانے باز متعین کردیے گئے ہیں، عمارتوں کے مکینوں کو بالکونیوں اور کھڑکیوں سے جھانکنے سے بھی منع کیا گیاہے جبکہ شہر کی فضائی نگرانی کی جارہی ہے۔

محرم الحرام کے دوران راستے بند ہونے پر شہریوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صدر کی مین شاہراہ جہاں بوہری جماعت خانہ ہے، وہ پہلی محرم سے عام لوگوں کے پیدل چلنے کے لیے بھی بند کردیا گیا ہے، پورا صدر بری طرح ٹریفک جام میں پھنسا رہتا ہے اور چند لوگ آرام سے روڈ کو بند کر کے محوگفتگو رہتے ہیں اور حفاظت پر مامور پولیس اہلکار پہرہ دے رہے ہوتے ہیں۔

 جہاں جہاں سے جلوس گزرنے ہوتے ہیں اور جہاں مجالس قائم کی جاتی ہیں وہاں پر خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں. ایم اے جناح روڈ سے متصل علاقوں میں کرفیو کا سماں ہوتا ہے۔

سیکورٹی کے نام پر ان علاقوں کومکمل طور پر سیل کردیا جاتاہے جس کی وجہ سے علاقہ مکین شدید مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ ہرسال کی طرح اس مرتبہ بھی ہم شہریوں کو نو محرم کے بجائے آٹھ محرم سے محصور کردیا گیا ہے۔

سیکورٹی کے نام پر تین دن تک محصور کرکے عوام کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔ کم از کم مریض اور خواتین و بچوں کو آمد و رفت کی اجازت ہونی چاہیے۔ لوگوں کی اکثریت کو جس پریشانی اور کوفت سے گزرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ ہمارے حکمران نہیں لگا سکتے ہیں جبکہ دوسری طرف جلوس کے راستوں پر قائم گھروں میں مہمانوں کی آمد بند اور دکانیں سات محرم الحرام سے ہی بند کرا دی جاتی ہیں اور رات میں لوگ تالے توڑ کر ان کی دوکانوں کا صفایا کر رہے ہوتے ہیں اور ایسا ہر سال ہی ہوتا ہے۔

دنیا کے 57 مسلم ممالک میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جو محرم الحرام کے دوران کئی دن بند رہتا ہے۔ ایران اور عراق میں بھی تمام مجالس ایک مخصوص جگہ پر کی جاتی ہیں۔

شہریوں کا کہنا تھا کہ انسانیت کے ناطے ہم سب ایک دوسرے کی مذہبی رسومات کے احترام کے پابند ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم رسومات کی ادائیگی میں دوسرے مسلمان بھائیوں کو تکلیف میں مبتلا کریں۔

جن علاقوں میں امام بارگاہیں قائم ہیں یا وہاں سے جلوس وغیرہ گزرنے ہوتے ہیں وہاں بالکل کرفیو کا سماں ہوتاہے وہ علاقے دس روز تک مسلسل بند رہتے ہیں اور اس علاقے کی عوام کو آنے جانے میں جتنی مشکلات پیش آتی ہیں اس کا اندازہ وہاں رہنے والے لوگ ہی لگا سکتے ہیں۔

اسی طرح اربوں روپے کی لاگت سے بنائے گئے ٹرانسپورٹ منصوبے گرین لائن بس سروس،پیپلز بس سروس(ریڈبسیں) کی سہولت سے 3دن کے لیے کراچی کے شہریوں کو  محروم کر دیا گیا ہے۔

سندھ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل کے حوالے سے ملک کا سب سے بدقسمت شہر،کراچی کے شہریوں کو دوہرے عذاب میں مبتلا کردیا ہے،گرین لائن بس سروس اور پیپلز بس سروس کی ترجمان کے مطابق 8 سے 10 محرم الحرام تک بس سروس معطل کر دی گئی ہے۔

 ترجمان گرین لائن بس سروس نے جواز یہ بنایا ہے کہ اس سروس کا آخری اسٹاف نمائش چورنگی پر ہے اور اسی علاقے سے جلوس برآمد ہوتے ہیں اس لیے امن و امان کے پیش نظرسروس تین دن کے لیے بند کی گئی ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ سرکاری چھٹیاں ہیں مسافر بھی نہیں ہوں گے اس لیے خسارے میں چلانے کا کیا فائدہ ہے؟

اسی طرح پیپلز بس سروس کی ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم نے 9سے 10محرم الحرام 2روز کے لیے اپنی بس سروس معطل کی ہے11محرم سے دوبارہ ریڈ بسیں کراچی کے مختلف روٹس پر چلنا شروع ہوجائے گی۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومتیں عوامی مفاد کا  کیوں نہیں سوچا کرتیں ہیں۔سرجانی ٹاؤن سے چلنے والی گرین لائن کی بسیں نارتھ ناظم آباد، ناظم آباد، لسبیلہ، گرو مندر سے ہوتی ہوئی نمائش پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اس 21 کلومیٹر طویل ٹریک پر 21 ہی اسٹیشن ہیں جہاں سے مسافرسوار ہو کر کم از کم گرومندر تک تو آسکتے تھے۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ ایسا ہر گز نہیں کہ مسافر نہیں ہوں گے۔ سرجانی اور راستے بھر سے عزادار اوردیگر شہری بھی اس سروس سے فیضیاب ہو سکتے تھے لیکن حکومت نے اپنی سہولت کو شہریوں پرمقدم رکھا کہ شہری کیوں پریشانی سے نجات حاصل کریں۔ایسی صورت حال میں جب انتظامیہ نے پہلے ہی موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

 اس پر تمام مکاتب فکر کو سوچنا ہوگا. ایسی کیا وجہ ہے صرف محرم الحرام میں ہی پورے کراچی کے لوگوں کو گھروں میں محصور کردیا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح بھی سوگ منانا چاہتے ہیں منایا جائے مگر اس کے لیے بڑی اراضی خرید لیں اور پھر وہاں جو دل چاہے کریں، اس طرح دوسرے مسلمان بھی پریشان نہیں ہوں گے اور آپ بھی اپنی عبادات آرام و سکون سے کر سکیں گے۔

یہ بات بہت شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ آپ جب بھی ایسے مذہبی جلوسوں اور رسومات کی بابت بات کریں گے تو آپ کو فورا گستاخ یا منکر اسلام بنا دیتے ہیں۔

شہریوں کا مزید کہنا تھا کہ پہلے ہی کراچی کی سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ، ٹھیلے پتھارے اور ناجائز تجاوزات کے باعث ٹریفک کی صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے اگر آپ ملیر کینٹ کے گیٹ نمبر6سے صفورہ چورنگی کی طرف سفر کریں تو سیدھے ہاتھ اور الٹے ہاتھ کی دونوں سڑکیں انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔

 ایک طرف پانی کے ٹینکروں نے شہریوں کی بری حالت کی ہوئی ہے ایک سڑک میمن اسپتال سے سپرہائی وے تک ملتی ہے جگہ جگہ گہرے کھڈے ہونے کے باعث ٹریفک جام ہونے سے شہری پریشانی کا شکار ہیں یہاں ہر سال محرم الحرام، ربیع الاول، جشن آزادی جلسے جلوس کا سلسلہ جاری رہتا ہے اس کے علاوہ وی آئی پی پروٹوکول کے باعث اکثر و بیشتر ٹریفک جام رہتا ہے۔

شہریوں نے حکومت سندھ، وزیر اعلیٰ سندھ، صوبائی محتسب سندھ(کراچی)، آئی جن سندھ پولیس،آئی جی ٹریفک پولیس کراچی سے اپیل کی ہے کہ اس ساری صورتحال سے نمٹنے کے لیے موثر حکمت عملی وضع کر کے متبادل راستے فراہم کیے جائیں اور جلسے جلوس کے لیے سپر ہائی وے پر کوئی الگ جگہ فراہم کی جائے تاکہ شہریوں کو سکون کا سانس مل سکے۔تاکہ لوگوں کو اس اذیت سے نجات مل سکے اور منٹوں کا فاصلہ بجائے گھنٹوں کہ مقررہ وقت پر ہی طے کرنا ممکن ہو سکے۔

دوسری جانب انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یومِ علی کے جلوس کی وجہ سے ایم اے جناح روڈ اور اطراف کی سڑکیں بند کردی گئیں، لوگوں کو پریشانی سے بچنے کے لیے متبادل راستے اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔