ڈالر پر ڈرون حملہ

805

اُسامہ بن لادن کے دست راست اکہتر سالہ مصری نژاد ڈاکٹر ایمن الظواہری کابل کے پوش علاقے کے گھر میں امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بن گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے اس کامیابی کا باضابطہ اعلان خود کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ اس حملے میں کوئی عام شہری یا ایمن الظواہری کے گھر کا کوئی فرد مارا نہیں گیا۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق ایمن الظواہری اپنے پوتوں پوتیوں کے ساتھ اس گھر میں مقیم تھے۔ یہ گھر افغانستان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے ایک حمایتی کا تھا۔ ایمن الظواہری اُسامہ بن لادن کی موت کے گیارہ سال بعد امریکا کا ہدف بنے۔ گیارہ برس قبل امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی ہی کے صدر بارک اوباما نے فاتحانہ انداز میں اعلان کیا تھا کہ امریکا نے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ایک آپریشن کے ذریعے اُسامہ بن لادن کو ہلاک کیا ہے۔ کہا گیا ایمن الظواہری جس گھر میں مقیم تھے وہ سفارت خانوں کے قریب واقع تھا۔ اُسامہ بن لادن کی طرح ایمن الظواہری کی موت بھی مسلمان دنیا میں کسی بڑی اتھل پتھل کی وجہ نہیں بنی مگر اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات نے پاکستان کے لیے ایک نئی اور پرخطر کہانی کا آغاز کردیا ہے۔
امریکا نے ایمن الظواہری کو میزائل آر ایکس نائن کے ذریعے نشانہ بنایا۔ اس میزائل میں وار ہیڈز کے بجائے بلیڈ استعمال ہوتے ہیں اور زیادہ تیر بہدف ہوتا ہے۔ اس سے ٹارگٹ کو ہٹ کرنے زیادہ نقصان بھی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ کہ کابل میں اس کاروائی کی زیادہ گونج سنائی نہیں دی۔ اُسامہ بن لادن کی طرح ایمن الظواہری کی طرح موت کی خبر بھی عوامی سطح پر بے تاثر ہی سنی اور سن کر اُڑا دی گئی مگر اس کے بعد سوالات اور خدشات کا ایک سیلاب سا اُمڈ کر آیا۔ امارت اسلامی افغانستان نے ایک بیان میں اس کاروائی کو دوحا معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا۔ دو دن بعد امارت کی ویب سائٹ پر کہا گیا کہ امریکی ڈرون کو جن ممالک نے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی ہے امارت اسلامی افغانستان کی حکومت اس کے متعلق تحقیقات کرے گی۔ الجزیرہ ٹی وی نے پہلے ہی خبر دی تھی کہ امریکا نے پاکستان کے تعاون سے یعنی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے ایمن الظواہری کو نشانہ بنایا۔ امریکا کے ڈرون نے قطر کی فضائی حدود سے اُڑ کر کابل میں کاروائی کی تو اس کے لیے دو ملکوں کی فضائی حدود ہی استعمال کی جا سکتی ہے اور وہ ہیں پاکستان اور ایران۔ ایران سے تو اس اجازت کی قطعی توقع نہیں لے دے کر اس سہولت کاری کے لیے پاکستان کا نام ہی آرہا ہے۔ ڈمہ ڈولہ کے ڈرون حملے میں کئی دن تک یہ کنفیوژن موجود رہا کہ یہ امریکا کی کاروائی ہے یا پاکستان کی۔ جنرل مشرف نے اس کاروائی کی ذمے داری اپنے سر لینے کی کوشش کی تھی مگر یہ حقیقت زیادہ دیر تک چھپی نہ رہ سکی کہ امریکا پاکستان میں شمسی ائر بیس استعمال کرتے ہوئے افغانستان اور پاکستان میں ڈرون حملے کر رہا ہے۔ یوں ایمن الظواہری کے خلاف کاروائی میں فضائی حدود کے استعمال کا معاملہ بھی زیادہ دیر تک معمہ نہیں رہے گا۔ امریکی خود اس حقیقت کو بیان کر تے چلے جائیں گے۔
وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے پاکستان کی فضائی حدود کے استعمال کی تردید کی مگر حکومت کے ایک ہمدرد اخبار نویس نجم سیٹھی نے اس کاروائی کو پاکستان اور امریکا کی مشترکہ کاروائی قرار دیا بلکہ جنرل باجوہ کے وینڈی شرمن کو کیے جانے والے ٹیلی فون کو بھی اسی کاروائی کے ساتھ جوڑا کہ اس مشترکہ کاروائی کے بعد جنرل باجوہ نے امریکا کو آئی ایم ایف سے قرض دلوانے میں مدد کی اپیل کی۔ طالبان نے امریکا کی اس کاروائی کو دوحا معاہدے کی خلاف ورزی کہا تو دوسری طرف طالبان نے اسی معاہدے میں اپنی سرزمین امریکا کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اس طرح طالبان اور امریکا دونوں دوحا معاہدے کی اپنی تشریح کر رہے ہیں۔ امکان یہ بھی ہے کہ پاکستان کی طرح امارت اسلامی بھی اس کاروائی کی خاموش شراکت دار ہو۔ اگر امریکا طالبان حکومت کے خلاف اپنی سخت گیری میں کمی لاتا ہے تو اس بات کو رد کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ ایمن الظواہری کے خلاف افغانستان میں امریکا کی یہ پہلی کاروائی ہے نہ آخری گویا کہ ایک بار پھر پاکستان دوہزار کی دہائی میں واپس جا سکتا ہے جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکا کی بندوق اپنے کندھے پر رکھے ہوئے تھا اور اس کے بدلے میں وہ دہشت گردی کا نشانہ بن کر رہ گیا تھا۔ ایک طرف امریکا کا دبائو تھا تو دوسری طرف دہشت گردوں کی یلغار جو اس بات سے طاقت اور آکسیجن حاصل کر رہے تھے کہ پاکستان امریکا کا فوجی اتحادی بن کر انہیں قتل کر رہا ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کے اس عفریت سے جان چھڑانے کے لیے امریکا سے فاصلہ پیدا کرنا پڑا تھا۔ وہ دور اس لحاظ سے قدرے مختلف تھا کہ امریکا امداد کے ذریعے پاکستان پر مہربان تھا۔ اب تو آئی ایم ایف سے قرض دلوانے کی سفارش کو بھی ایک احسان عظیم بنا دیا گیا ہے۔ وہ قرض جو پاکستانیوں کو اپنا خون پسینہ گرا کر واپس لوٹانا ہے ایک خیرات اور احسان کے طور پر دلوایا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی فیصلہ سازی کی حیثیت اور پوزیشن ماضی کے مقابلے میں مزید کمزور ہو گئی ہے۔ اگر پاکستان کی حدود ڈرون حملے کے لیے استعمال ہوئی ہے اور یہ سلسلہ آگے بھی چلنا تو پھر یہ امریکا کی جنگ میں واپسی کے مترادف ہے اور اس کا مطلب اپنا حلیہ بگاڑنا اور ایک بار پھر چکی کے دو پاٹوں تلے پسنا ہے۔ فی الحال ڈرون اور ڈالر کے جھنجٹ میں پڑے بغیر مصنف اور مزاح نگار میجر ریٹائرڈ مقبول حسین کے اس ٹویٹ کا لطف ہی لیا جا سکتا ہے ’’ڈالر کمبخت اتنا باغی ہوچکا تھا کہ بہت سمجھانے کے باوجود بھی نیچے نہیں آرہا تھا آخر میں ڈرون مار کر نیچے لانا پڑا‘‘۔