نظر کو خِیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی

794

عالم اسلام کے بجائے آج کل قتل و غارت گری، جنگ و جدال اور تختہ پلٹ کی خبریں دیگر ممالک سے آرہی ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں غیر مسلم دنیا سے آنے والی اس قسم کی مختلف خبریں ذرائع ابلاغ پر چھائی رہیں مثلاً امریکا کے ہائی لینڈ پارک سے فریڈم پریڈ یعنی جشن آزادی کے جلوس پر گولیاں برسانے کا اندوہناک واقعہ منظرِ عام پر آیا۔ اس کے بعد برطانیہ میں اقتدار کی کرسی ہلنے لگی اور بڑی ردو کد کے بعد وزیر اعظم بورس جانسن نے بادلِ نخواستہ استعفا دیا۔ اس پر جہاں ایک طرف روس اور یوروپی یونین نے خوشی منائی وہیں یوکرین غم میں ڈوب گیا۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے صدر نیفتالی کو بھی اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا اور اب وہاں تین سال کے اندر پانچوے انتخاب کی تیاری شروع کردی گئی۔ برِ صغیر ہندو پاک میں وزیر اعظم مہندا راج پکشے کے بعد ان کے بڑے بھائی گوٹابایا بھی فرار ہوگئے نیز جاپان کے سابق وزیر اعظم شنزو آبے کو انتخابی مہم کے دوران گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ ان سانحات کے تناظر میں مسلم دنیا کے اندر امن و امان کا ایک سبب دہشت گردی پھیلانے والے ممالک کا اپنے داخلی مسائل میں الجھا ہواہونا بھی ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکا میں یوم آزادی کے دن گولیوں سے ہلاکت کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے۔ گزشتہ سال یوم آزادی کے آخر ہفتہ میں امریکا کی تقریباً تمام ہی ریاستوں میں گولی براسانے کے واقعات رونما ہوئے تھے۔ ان میں کم ازکم 220 لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تھا اور 570 لوگ زخمی ہوگئے تھے۔ امسال کے پہلے نصف میں امریکا کے اندر اجتماعی گولی برسانے کے 315 واقعات درج کیے جاچکے ہیں اور بندوق کے ذریعے 22,500 ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اپنے آپ کو مہذب ترین کہنے والے امریکا میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے وہاں کی 30 کروڈ آبادی کے پاس 40 کروڈ بندوقیں ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہاں ہر دن 53 لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ 2019 میں 23 ہزار سے زیادہ لوگوں نے بندوق کی مدد سے خودکشی تھی۔ علامہ اقبال کی یہ اشعار امریکا کے نام نہاد ترقی یافتہ سماج پر لفظ بہ لفظ صادق آتے ہیں
یہ عیشِ فراواں، یہ حکومت، یہ تجارت،
دل سِینۂ بے نْور میں محرومِ تسلّی
تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھْویں سے،
یہ وادیِ اَیمن نہیں شایانِ تجلّی
ایسی دگرگوں صورتحال اگر کسی مسلم ملک میں ہوتی تو اسے دین اسلام اور قرآن حکیم کی تعلیمات سے جوڑا جاتا اور ہمارے دانشور احکامات الٰہیہ کے الٹے سیدھے مطالب بیان کرنے میں جٹ جاتے لیکن جمہوریت تو ایک ایسی مقدس گائے ہے کہ اس پر تنقید کرنے کی جرأت اس کے حامی تو دور مخالفین بھی نہیں کرتے۔ یہ مرعوبیت ہی عصر حاضر کی فکری دہشت گردی ہے۔ پچھلے پچاس سال میں امریکا کے اندر بندوق سے ہونے والی تشدد کی وارداتوں میں 15 لاکھ لوگوں نے اپنی جان گنوائی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس قدر قتل و غارت گری کے باوجود امریکا میں بندوق کی خرید و فروخت پر پابندی کیوں نہیں لگتی؟ اس تلخ سوال کا میٹھا جواب وہاں رائج جمہوری نظامِ سیاست ہے جس پر ساری دنیا ناز کرتی ہے۔ جمہوریت نواز لوگوں کا اس پر اعتراض ہوگا لیکن سچائی یہی ہے کہ امریکا میں برسرِ اقتدار ڈیموکریٹک پارٹی کے 91 فی صد ارکان پارلیمان بندوقوں کی تجارت پر سخت قوانین بنانے کے حامی ہیں۔ حزب اختلاف ریپبلکن کے بھی 24 فی صد ارکان کی حمایت انہیں حاصل ہے اس کے باوجود وہاں دستور میں ترمیم نہیں ہوپاتی اور کوئی ایسا قانون وضع نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جس سے اس مصیبت سے چھٹکارہ مل سکے۔
دنیا کی عظیم ترین جمہوریت میں اس راہ کا واحد روڑا اندرونِ ملک پائے جانے والے 63ہزار بندوقوں کے تاجر ہیں۔ اس دو فی صد آبادی نے اپنی دولت کے زور پر دنیا کی عظیم ترین جمہوریت کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ امریکی معیشت کے مقابلے ان کا کاروبار بہت معمولی یعنی صرف 83 ہزار کروڈ ہے لیکن یہ لوگ کروڑوں روپے عوامی نمائندوں کو رشوت دے کر اپنا ہمنوا بنائے رکھنے پر خرچ کرتے ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق سال 2020 میں بندوق کی حامی لابی نے اپنے کاروبار کا دس فی صد سے بھی کم یعنی تقریباً3.2 کروڈ ڈالر عوامی نمائندوں کو لبھانے پر خرچ کیا۔ اس کے برخلاف بندوقوں پر پابندی لگانے والے صرف 2.2 کروڈ خرچ کرپائے اس طرح نوٹ نے ووٹ کو ہرا دیا۔ امریکا کے اندر جمہوریت کا یہ تماشا ممکن ہے تو مہا راشٹر میں کیوں نہیں؟
امریکا کے برعکس جاپان نہایت محفوظ ملک ہے۔ وہاں چونکہ سیکورٹی بہت نرم ہوتی ہے اس لیے انتخابی مہم کے دوران سیاست دان گلیوں کے کناروں پر کھڑے ہو کر تقاریر کرتے ہیں اور راہگیروں سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ جاپان میں اسلحہ کا حصول خاصہ مشکل ہے۔ وہاں مجرمانہ ریکارڈ سے پاک تربیت یافتہ فرد کو نفسیاتی جائزہ لینے اور خاندانی پس ِ منظر کی تفصیلی چھان بین کے بعد ہمسائیوں کی معلومات کو پیش نظر رکھ کر لائسنس دیا جاتا ہے۔ اس لیے جاپان میں ہتھیاروں سے اموات کا سالانہ اوسط صرف 10 ہے جبکہ 2017 میں تو صرف تین اموات ہوئی تھیں لیکن شنزو آبے کے قاتل نے یوٹیوب پر دیکھ کر ازخود دو پائپ جوڑ کر بندوق بنا ڈالی۔ جاپان میں سب سے مشہور سیاسی قتل 1960 میں ہوا۔ اس وقت سوشلسٹ پارٹی کے رہنما انیجور اسانوما کو ایک دائیں بازو کے شدت پسند نے تلوار سے حملہ کرکے ہلاک کردیا تھا۔ جاپان میں اب بھی دائیں بازو کے شدت پسند موجود ہیں لیکن سابق وزیر اعظم آبے خود پچھلے تین دہائیوں کے سب سے زیادہ مقبول دائیں بازو کے قوم پرست رہنما تھے۔ اس لیے انہیں کسی ایسے گروہ کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کا امکان نہیں ہے۔ اس کے باوجود انتخاب میں کامیابی حاصل کرکے وزیر اعظم کے عہدے پر دوبارہ فائز ہونے سے قبل ان کا قتل یہ بتاتا ہے کہ جمہوریت میں پرامن طور پر اقتدار کی تبدیلی سے قبل جاپان جیسے ملک میں بھی اس طرح کا خون خرابہ سارا کھیل بگاڑ سکتا ہے۔
دنیا بھر سے گھوم کر برصغیر میں لوٹیں تو وہاں سب سے بڑا سیاسی انقلاب سری لنکا میں رونما ہوا۔ سری لنکا کے عوام نے پہلے وزیر اعظم مہندا راج پکشے کو مار بھگایا اور پھر ان کے بھائی صدر مملکت گوٹا بایا راج پکشے کے محل میں گھس گئے۔ سری لنکا کے راج پکشے خاندان کا وہاں کی سیاست پر ویسا ہی رسوخ تھا جیسا کہ ہندوستان میں سنگھ پریوار کا ہے۔ ان کے فسطائی نظریات میں بھی کمال کی یکسانیت ہے۔ گوٹابایا نے سنہالی بودھوں کی خوشنودی کے لیے پہلے تو تمل باشندوں کو کچلا اور اس کی بنیاد پر اپنی مقبولیت کا ڈنکا بجایا۔ اس کو قائم رکھنے کے لیے مسلمانوں کے پیچھے پڑ گئے اور ملت کے خلاف میانمر جیسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش میں جٹ گئے۔ نفرت کی بنیاد سیاسی دوکان چمکانے میں مودی اور شاہ کی طرح مہندا اور گوٹا بایا بھی مشاق تھے۔ انہوں نے میڈیا کو قبضے میں لے کر غیر معمولی انتخابی کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کی جماعت کو ایوان پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل تھی لیکن وہ دنوں بھی نہایت نااہل تھے۔ عوام کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے انہیں جذباتی چورن کھلاکر اپنا کام چلاتے تھے لیکن جب لوگوں کا پیمانہ ٔ صبر لبریز ہوگیا تو ساری عیاری اور مکاری دھری کی دھری رہ گئی۔ گوٹا بایا اور مہندا کے انجام میں دنیا بھر کے کرتب باز نااہل سیاستدانوں کے لیے عبرت کا سامان ہے۔
سری لنکا میں برپا ہونے والا حالیہ انقلاب نہ بیلیٹ کے صندوق سے نکل کر آیا اور نہ بندوق کی بولیٹ کے بدولت برپا ہوا۔ اس عوامی انقلاب کو کسی زاویہ سے جمہوری نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ ایک نہایت مثبت اور ضروری تبدیلی تھی۔ اس نے یہ ظاہر کردیا کہ عوام کو بیوقوف بناکر بہلایا پھسلایا تو جاسکتا ہے لیکن اس کی بھی ایک حد ہے اور اس کے بعد جھولا اٹھاکر سرنگ کے ذریعہ راہِ فرار اختیار کرنے کی نوبت آن کھڑی ہوتی ہے۔ حکومت ِ ہند میں وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے سری لنکا میں جاری سیاسی بحران پر اپنے بیان میں کہا کہ سری لنکا میں حالیہ پیش رفت پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن اس کے آگے انہوں نے کہا سری لنکا کے عوام جمہوری طریقوں اور اقدار، قائم شدہ اداروں اور آئینی ڈھانچے کے ذریعے اپنی خوشحالی اور ترقی کی خواہشات کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں ہندوستان سری لنکا کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہندوستان کا سری لنکا کے لوگوں کے ساتھ کھڑا رہنا قابل ِ ستائش ضرور ہے لیکن کیا جمہوری طریقہ اور اقدار لوگوں کو صدارتی محل میں اس طرح داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں؟ کیا سری لنکا کے آئین میں اس کی اجازت ہے؟ اور قائم شدہ ضابطوں میں یہ بات شامل ہے؟ ہرگز نہیں۔ اس کے باوجود سری لنکا کے عوام نے یہ ضروری کارنامہ کردکھایا اور اس کے لیے وہ قابلِ صد مبارکباد ہیں۔ سری لنکا کے عوامی انقلاب نے فیض احمد فیض کی اس نظم کو زندہ کردیا
ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں، روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے، جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر، جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
(جاری ہے)