امام حسین کے مشن کو پورا کریں

469

محرم قمری و اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ اس ماہ کی اہمیت کی وجوہات تو اور بھی ہیں لیکن اب زیادہ اہمیت شہادت سیدنا حسینؓ کی مناسبت سے سمجھی جاتی ہے۔ یہ مہینہ شروع ہوتے ہی عالم اسلام کے لوگوں کے دل سوگواری میں ڈوب جاتے ہیں۔ شدید دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ جاہ و حشمت کے لحاظ سے وہ زمانہ مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ اقوام عالم مسلمانوں کے دبدبے سے خوفزدہ تھیں۔ نواسہ رسولؐ پر ظلم ڈھانے والے کوئی اور نہیں، انھی رسولؐ کا کلمہ پڑھنے والے تھے۔ یہ دلدوز واقعہ دس محرم الحرام 61 ہجری بمطابق 9.10 اکتوبر 680 عیسوی کو پیش آیا۔ اگر دیکھا جائے تو سیدنا حسینؓ کے مد مقابل جو مسلمان تھے وہ اخلاقی لحاظ سے ہم سے بہتر مسلمان تھے۔ وہ دین کو ہم سے زیادہ جانتے تھے۔ وہ نواسہ رسولؐ کی اہمیت بھی جانتے تھے۔ ہو سکتا ہے ان کے دلوں میں حب رسولؐ بھی آج کے مسلمانوں سے زیادہ ہو۔ لیکن جس چیز نے ان کی آنکھوں پر ظلم کی پٹی باندھ دی وہ اقتدار کی ہوس تھی۔ وہ دنیاوی جاہ کی بھوک میں خوف ناک بھیڑیے بن گئے۔ یہ لڑائی ان دو مسلمان گروہوں کے درمیان تھی جن میں ایک حسینی گروہ جس کی تمنا اللہ کے احکامات کا غلبہ نافذ کرنا تھا۔ باطل کے سامنے حق کی شمع پکڑ کر ڈٹے رہنا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے لیے جینا اور اللہ تعالیٰ ہی کے لیے مرنا تھا۔ اور دوسرا یزیدی گروہ جو دنیا کی فریب کاریوں میں مبتلا ہو چکا تھا۔ جو عہدہ و جاہ اور حصول انعامات کی رنگینیوں کے دھوکے میں گھر چکا تھا۔ علامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا:
شہادت ہے مطلوب مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا وجہ تھی کہ سیدنا حسینؓ نے یزید کی زبردستی والی بیعت قبول نہ کی۔ سیدنا حسینؓ نے محض 150 لوگوں کے قافلے کے ساتھ جس میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، باغی فوج کے چالیس ہزار لشکر کے سامنے کھڑا ہونا تو منظور کرلیا لیکن ان کے سامنے جھکنا قبول نہ کیا۔ سیدنا حسین نے جان تو قربان کر دی لیکن یزید کو بطور حکمران تسلیم نہیں کیا۔
آپؐ کے بعد خلافت کا فیصلہ ہمیشہ شوریٰ کے ارکان کرتے رہے تھے۔ اگر اسلام میں نسلی حکمرانی کا کوئی وجود ہوتا تو آپؐ کے بعد آپ کے جانشین سیدنا علیؓ ہوتے جو نہ صرف آپؐ کے داماد تھے بلکہ چچازاد بھائی بھی تھے۔ آپؐ نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی کچھ ذمے داریاں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو ضرور سونپیں لیکن آپؐ نے بھی ابوبکرؓ کو خلافت دینے کا حکم نہیں دیا تھا۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو خلافت دینے کا فیصلہ اس وقت کے چند برگزیدہ صحابہ کرام نے آپس میں مشورہ کرکے کیا کیونکہ ان صحابہ کرام کی نظر میں اس وقت ابو بکرؓ سے زیادہ متقی کوئی دوسرا نہیں تھا۔ ابوبکرؓ کی وفات کے بعد خلافت بالترتیب سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ کو ملی وہ بھی صحابہ اکرام کی مجلسِ شوریٰ کے فیصلے پر۔ سیدنا علیؓ کا نام چوتھے نمبر پر آیا۔ یاد رہے کہ مجلس ِ شوریٰ نے ان کا انتخاب بھی کسی حسب نسب کی بنا پر نہیں بلکہ صرف تقوے، علم و حکمت کی بنا پر کیا۔ ان کی انسانی صلاحیتوں و خصوصیات کو مد نظر رکھا۔ اسلام کی تاریخ میں پہلی بار سیدنا معاویہؓ نے یہ جرأت کی کہ بغیر مجلس شوریٰ کے فیصلے کے اپنے بیٹے یزید کا نام امیر کے لیے منتخب کر لیا اور تمام سرداروں کو یزید کی بیعت پر مجبور کیا۔ اکثر لوگوں نے وقت کا تقاضا اور مصلحت سمجھ کر بیعت کر لی لیکن سیدنا حسینؓ جیسے بہادر، نڈر، پر حکمت و دانا، دور رس انسان نے اس بیعت سے انکار کر دیا اور اس باطل کے خلاف ڈٹ گئے۔ آپ جانتے تھے کہ اس بیعت کا مطلب آمریت اور نسبی بادشاہت کو قیامت تک کے لیے درست قرار دینے پر نواسہ ٔ رسول کی مہر لگ جائے گی اور پھر کوئی اس نظام کے خلاف بول نہیں سکے گا۔ خلیفہ وقت، خلیفہ نہیں بادشاہ اور آمر بن جائے گا۔ وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ اور عوام کا جواب دہ نہیں سمجھے گا۔ اسلامی ریاست میں بھی قرآن اور سنت کے بجائے انسانی رائے ہی کو فوقیت دی جائے گی۔
یزید کے باطل طریقے سے شروع ہونے والی آمریت اور بادشاہت آج پورے عالم اسلام میں سرایت کر چکی ہے۔ اسی بات کا سیدنا حسینؓ کو خدشہ تھا۔ حال کے مسلمانوں کی پسماندہ حالت زار اسی کا نتیجہ ہے۔ ہم کہیں دور نہ جائیں اپنے ملک کی ہی سیاسی حالت زار دیکھ لیں۔ سیاسی بندروں نے اپنے اقتدار کی ہوس میں ملک میں اودھم مچا رکھا ہے اور ملک کی معیشت ان کے پاؤں تلے رند چکی ہے۔ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے ایک مخصوص طبقے ہی کو اقتدار میں دیکھ رہے ہیں۔ نہ کوئی تقویٰ نہ کوئی فہم و فراست دیکھی جاتی ہے۔ ملک ان کی کم عقلی کا شکار ہوکر روز بروز تنزلی کی طرف جارہا ہے۔ ہمارے ملک کی کرنسی ریکارڈ سطح پر گر رہی ہے اور مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ مولانا مودودی نے فرمایا تھا۔ ’’ایک ووٹ ہی تو تھا جو سیدنا حسینؓ نے یزید کو نہیں دیا تھا‘‘۔ سیدنا حسینؓ نے اپنا اور اپنے خاندان کے سر کٹوا لیے لیکن باطل طریقے پر اپنا ووٹ نہیں دیا۔ ادھر ہم محبت کا دعویٰ تو سیدنا حسینؓ سے کرتے ہیں لیکن ان نسبی اقتدار اور لوٹ مار کی ہوس کے پجاریوں کو اپنا ووٹ کتنی آسانی سے دے دیتے ہیں جن کے نزدیک اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کی کوئی قدرو قیمت ہی نہیں۔ اہمیت ہے تو صرف اپنی تجوریاں بھرنے اور اقتدار پر قابض ہونے کی اور اسی کرسی کی چھینا چھینی میں ایسی بچگانہ حرکتیں کرتے ہیں جنہیں دیکھ کر نادان طفل بھی شرما جائیں۔
اگر ہم سیدنا حسینؓ سے محبت کے دعوے دار ہیں تو آئیے! اس مشن محمدؐ کو پورا کرنے کے لیے کھڑے ہوجائیں جس کو پورا کرنے کے لیے سیدنا حسینؓ نے اپنے خاندان سمیت جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ آئندہ اپنا ووٹ اس شخص کو دیں جو خود بھی متقی پرہیزگار ہو، دین اسلام کو اچھی طرح سمجھنے والا اور اس پر عمل کرنے والا ہو، جو پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی باتیں کرکے ملک میں شراب خانے کھولنے کے لائسنس جاری کرنے والا نہ ہو بلکہ شراب، سود اور دوسری خرافات کو ختم کر کے ملک میں مکمل اسلامی نظام نافذ کرنے والا ہو۔ جو نسبی سیاستدان نہ ہو بلکہ اس کی پارٹی نے علم و تقویٰ کی بنا پر اس کا انتخاب کیا ہو۔ بس تھوڑی سی نظر دوڑائیں گے تو آپ کو ایسے امیدوار ضرور مل جائیں گے، ان شاء اللہ۔