!!!قرض مانگتے ہوئے شرم

551

پاکستانی حکمرانوں کا مستقل رویہ ہے کہ کسی ایک بات پر قائم نہیں رہتے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کو خودکشی کہنے والے نے پہلا بڑا قدم آئی ایم ایف کے پاس ہی جا کر اٹھایا۔ ان پر تنقید کرنے والوںنے اقتدار سنبھالا تو آئی ایم ایف کے در پر مستقل سجدہ ریز ہیں، ہر طرف سے سفارشیں لگوارہے ہیں اور اب سابق حکمران پی ڈی ایم کو کہہ رہے ہیں کہ اس کی معاشی پالیسیاں غلط ہیں اور وہ ناکام ہوگئے ہیں۔ الزام تو صرف عمران خان کو دیا جاتا ہے کہ وہ یوٹرن کے ماہر ہیں لیکن ہر حکمران یوٹرن میں یدطولیٰ رکھتا ہے۔ جس طرح پی ٹی آئی حکومت کے پہلے چھ ماہ اس پر تنقید نہ کرنے کا حکم جاری ہوا تھا اسی طرح اب پی ڈی ایم کے لیے بھی یہی خواہش ہے لیکن اعلانیہ نہیں کہا جاتا۔ پی ڈی ایم کے وزیر خزانہ اپنی معاشی پالیسیوں کو کامیاب قرار دیتے ہیں لیکن روز کوئی نہ کوئی شکوہ ان کی زبان پر ہوتا ہے۔ تازہ شکوہ انہوں نے یہ کہا ہے کہ دنیا بھر سے قرض کے حصول میں دشواری کا سامنا ہے۔ لیکن اس ایک نشست میں وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ادھار مانگتے ہوئے شرم آتی ہے۔ یہ ایسی بات ہے جو پاکستانی حکمرانوںکی تاریخ میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ یوں کہا جائے کہ حکمران وہی بنتا ہے جو اس خصوصیت سے عاری ہو۔ وہ خود سوچیں کہ پاکستان کو قرض ملنے میں دشواری کیوں ہوتی ہے۔ کم از کم مفتاح اسماعیل اور پیپلز پارٹی کے رہنما یہ تو بتائیں کہ وہ کیا وجہ ہے جس نے پاکستان کو ناقابل اعتبار بنا دیا ہے۔ پی ٹی آئی نے تو تقریباً چار سال حکمرانی کی ہے لیکن پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں تو گزشتہ 30 سال سے باری باری اقتدار میں رہی ہیں۔ انہوں نے ایسا کیا کام کیا کہ ملک غلامی سے نکل جاتا اور قرض سے جان چھوٹ جاتی۔ مفتاح اسماعیل کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کی اپنی پارٹی بھی دنیا میں پاکستان کو غیر معتبر بنانے کی ذمے دار ہے۔ وزیر خزانہ نے ایک غلط بیانی یہ بھی کی ہے کہ بہت عرصے سے بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھی تھیں اس لیے حالیہ اضافے سے لوگوں کو دھچکا لگا۔ اس کے ساتھ انہوں نے خوش خبری دی کہ تین ماہ بعد قیمتوں میں کمی آجائے گی۔ سب سے اہم بات انہوں نے یہ کہی ہے کہ ادھار مانگتے ہوئے شرم آتی ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کو عوام سے جھوٹ بولتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ جھوٹے وعدے کرتے ہیں اس پر بھی شرم نہیں آتی، جو وعدہ وہ کررہے ہیں کہ تین ماہ بعد بجلی سستی ہوجائے گی وہ پاکستان کی تاریخ دیکھیں کسی چیز کی قیمت بڑھ جائے تو کبھی واپس اس سطح پر نہیں آتی جس سے وہ بڑھی تھی۔ وہ پتا نہین کیسے یہ کہہ رہے ہیں کہ 3 ماہ میں کمی آجائے گی اور یہ کہ بہت عرصے سے بجلی کی قیمت نہیں بڑھی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر سال میں دو تین مرتبہ بجلی مہنگی ہوتی رہتی ہے، اس پر سابق مہینوں کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز بھی وصول کیے جاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے انہیں یقین ہو کہ تین ماہ بعد ان کی حکومت ہی نہیں رہے گی، پاکستانی حکمران ملک کو قرضے پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمیشہ ناکام رہتے ہیں ان کی ناکامی کا سبب صرف یہ ہے کہ سارا خسارہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ مفتاح اسماعیل خود اپنی کمپنی کے لیے کتنا قرضہ لیتے ہیں اور یہ قرضہ کبھی ادا کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھتے ہوں گے۔ پاکستانی حکمرانوں میں جتنے تاجر ہیں وہ بھی بینکوں سے قرض لیتے ہیں اور خود ہی ادا کرتے ہیں، اپنی اولادوں کے لیے یہ قرض چھوڑ کر نہیں مرتے۔ تو پھر پاکستان کو یتیم کیوں سمجھ لیا ہے کہ سب حکمران دل کھول کر قرض لیتے ہیں اور اقتدار سے چلے جاتے ہیں۔ قرضے واپس کرنے کے لیے اگلا حکمران مزید قرض لیتا ہے اور یہ گھنائونا چکر آج تک چل رہا ہے۔ ملک بھر میں بجلی نہیں ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اب بھی لوگوں کے قابو سے باہر ہیں، کبھی پٹرول کی قیمت کم کرکے ڈیزل کی زیادہ بڑھادی جاتی ہے ایک بار پھر پٹرول کی قیمتوں میں کمی کی بات کی جارہی ہے لیکن قوم کے سامنے پورا فارمولا رکھا جائے کہ عالمی منڈی میں کتنی قیمت کم ہوئی، کتنا پٹرول موخر ادائیگی پر ملا ہے اور عوام کو اس کا کتنا فی صد ریلیف دیا جارہا ہے۔ مفتاح اسماعیل صاحب کو اگر قرض مانگتے ہوئے شرم آتی ہے تو اب آئی ایم ایف کے در پر نہ جائیں۔ ایک دفعہ انکار کرکے تو دیکھیں پھر آئی ایم ایف والے خود پیچھے پیچھے آئیں گے۔ بلکہ اصل راستہ تو یہ ہے کہ خود انحصاری کے راستے تلاش کریں۔ قرض بھی جان چھوڑ دے گا، لیکن بس جرأت کی ضرورت ہے۔