جب کل کی حزب اختلاف اور آج کی حزب اقتدار نے تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کیا تو اس وقت خود اس تحریک کے پیش کرنے والے تذبذب کا شکار تھے کہ پتا نہیں اس تحریک کا کیا منطقی انجام ہو اس لیے کہ انہیں سینیٹ کے چیرمین کے انتخاب کا تلخ تجربہ یاد تھا دوسری طرف سابق وزیر اعظم عمران خان کو تو شاید سو فی صد یقین تھا کہ یہ تحریک بھی اسی طرح ناکام ہو جائے گی جس طرح سینیٹ چیرمین کے انتخاب میں اپوزیشن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ بڑے پر اعتماد تھے ان کی اتحادی جماعتیں انہیں چھوڑ کر نہیں جائیں گی لیکن سیاست کی دنیا بھی بڑی عجیب ہے جہاں سیاستدانوں کے منہ پھول جیسے لگتے ہیں وہیں ان کے دل وقت پڑنے پر پتھر کے ہوجاتے ہیں جیسا کہ سب سے آخر میں ایم کیو ایم نے عمران خان کو اپنے دل پر پتھر رکھ کر ٹھکرا دیا اور اس طرح تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی۔ بلا شبہ اس ساری تگ و دو میں پی ڈی ایم کے رہنمائوں نے جو کوششیں کیں وہ اپنی جگہ لیکن پی پی پی کے آصف زرداری نے جس اعلیٰ پیمانے پر جوڑ توڑ کی وہ وہی کر سکتے تھے۔ اس طرح پی ڈی ایم والے اپنی جدوجہد میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے عمران خان کو وزیر اعظم ہائوس سے بنی گالا واپس جانے پر مجبور کردیا۔
ہمارا مقصد اس پوری جدوجہد کی کہانی بیان کرنا نہیں ہے بلکہ اشارتاً پس منظر کی مختصر روداد بتانا ہے کہ اس کے بعد شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے ان کے بیٹے حمزہ شہباز پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے لیکن ان کی وزارت عُلیا ڈاواں ڈول تھی، صبح و شام کے سیاسی اُتار چڑھائو اور عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ بن جانے کے بعد اب اقتداری سیاست میں کچھ ٹھیرائو آیا ہے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف ہیں جن کی عملاً حکمرانی اسلام آباد تک محدود ہے پنجاب، کے پی کے اور کشمیر کی حکومتیں عمران خان کے پاس ہیں۔ اتحادی جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم کی کامیابی کے بعد اسے جن خوفناک مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہ تحریک عدم عتماد پیش کرتے وقت ان کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا نواز شریف بارہ جماعتی اتحاد پی ڈی ایم کے اقتدار لینے کے حق میں تھے بلکہ چاہتے تھے کے نگراں حکومت بنا کر انتخابات کرادیے جائیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ن لیگ اور پی ڈی ایم پر ان کی گرفت کچھ کمزور تھی اور ان کی بات کو ہوا میں اڑادیا گیا چلیے اتحادی جماعتوں کی حکومت بن گئی اب نواز شریف نے کہا کہ دو ماہ کے اندر نئے انتخابات کروادیے جائیں اس وقت مولانا فضل الرحمن بھی چاہتے تھے کہ دو تین ماہ کے اندر انتخابات ہو جائیں لیکن پھر آصف زرداری کا پلڑا بھاری رہا اور یہ فیصلہ ہوا کہ آئینی مدت کے بعد یعنی ستمبر 2023 میں اپنے وقت پر انتخاب ہوں گے۔
اب مسئلہ یہ سامنے آرہا ہے کہ موجودہ حکومت کے ساڑھے تین ماہ کے عرصے میں جو مہنگائی ہوئی ہے وہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور میں بھی نہیں ہوئی تھی لیکن جتنی بھی ہوئی تھی اتنی ہی میں عمران خان کی مقبولیت کا گراف نیچے جارہا تھا اب پی ڈی ایم کی حکومت کی مہنگائی نے پی ڈی ایم اور بالخصوص ن لیگ کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے کی طرف کردیا اور عمران خان اس وقت ملک کے پاپولر لیڈر بن چکے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ پنجاب کی بیس نشستوں کے ضمنی انتخاب میں ن لیگ جس کا پنجاب میں توتی بولتا تھا صرف تین نشستوں پر کامیاب ہو سکی ہے۔ جب موجودہ حکمرانوں کے سامنے یہ سوال رکھا جاتا ہے کہ کس حکیم نے کہا تھا کہ اس مصیبت کی گٹھڑی کا بوجھ اٹھائیں کہ جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی گرتی ہوئی سیاسی پوزیشن کو نہ صرف سہارا ملے بلکہ اس کا سفر اوپر کی طرف ہو جائے اور آپ کی سیاسی پوزیشن زوال کا شکار ہو جائے تو پھر پی ڈی ایم کے لوگ اور بالخصوص ن لیگ کے رہنما یہ کہتے تھے کہ ہم نے اس لیے اقتدار حاصل کیا ہے کہ اپنے اوپر چلنے والے مقدمات کو اگر ختم نہیں کیا جاسکے تو کم از کم اسے کچھ ہلکا کردیا جائے اور اسی طرح ہم کچھ انتخابی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ انتخابات میں ہمارے لیے کچھ آسانیاں ہو جائیں۔ اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی چاہتے ہیں کہ نیب میں بھی کچھ اصلاحات کی جائیں ان کا کہنا یہ تھا کہ عمران خان کی حکومت نیب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کررہی تھی۔
انتخابی اصلاحات کا ایک بل تو موجودہ حکومت نے پہلے ہی منظور کرالیا ہے جس میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کو مسترد کردیا گیا اور کچھ اپنی مرضی کی تبدیلیاں کی ہیں لیکن ان موضوعات پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینا ضروری ہے عمران خان کہتے ہیںکہ یہ انتخاب کی تاریخ کا اعلان کردیں ہم ہر موضوع پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں لہٰذا اس وقت موجودہ حکومت نے جو بھی انتخابی اصلاحات کا بل منظور کیا ہے وہ یکطرفہ ہے۔ اس کے بعد ابھی دو روز قبل سینیٹ سے نیب اصلاحات کایک بل منظور کیا ہے جس میں اور باتوں کے علاوہ اہم نکتہ یہ ہے کہ نیب صرف 50کروڑ یا اس سے زائد کی کرپشن پر تحقیقات کرے گا یہ بل قومی اسمبلی سے پہلے موجودہ حکومت منظور کراچکی ہے۔ اس طرح موجودہ حکومت نے نیب کے کردار کو محدود کرکے اس ادارے کو ایک طرح سے فارغ کردیا گیا۔ دوسری طرف یہ نہیں بتایا گیا کہ 50کروڑ سے کم کی کرپشن پر کو ن سا ادارہ تحقیقات کرے گا جو ادارے پہلے سے اس کرپشن کی روک تھام کے لیے کام کررہے تھے ان اداروںکی کارکردگی اگر اتنی ہی موثر اور قابل تعریف ہوتی اس ملک کی جسد سیاست میں کرپشن کا کینسر کیونکر پھیلتا۔ لے دے کر نیب اس میںکچھ تھوڑا بہت متحرک تھا گو کہ اس میں اس کی کچھ کارکردگی کوئی بہت زیادہ قابل رشک تو نہیں تھی۔ لیکن موجودہ حکومت نے نیب کے حوالے سے اصلاحات کا جو بل ایوان زیریں اور ایوان بالا سے منظور کرایا ہے وہ ملک میں کرپشن کے فروغ کا سبب بن جائے گا اس لیے کہ نیب کے علاوہ دیگر اداروں کا بد عنوان عناصر پر اس طرح کا خوف نہیں ہوگا جو کہ نیب کا تھا لہٰذا ہم یہ سمجھتے ہیں موجودہ حکومت نے یہ بل منظور کرکے 49کروڑ تک کے کرپشن کی خاموش اجازت دے دی ہے۔