پدرم سلطان بود اور دخترم سلطان بود

463

پاکستان تحریک انصاف کے سب سے اہم رہنما شاہ محمود قریشی نے بیٹے کی چھوڑی ہوئی نشست پر بیٹی کو الیکشن لڑانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ ملتان سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 157 سے اپنی بیٹی مہربانو قریشی کو انتخاب لڑوا رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عمران خان کی اجازت سے بیٹی کے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا کہ ’’مہربانو قریشی پڑھی لکھی ہیں اور ان کے پاس صحافت کا تجربہ بھی ہے، اور میری بیٹی کو اگلی نسل کا احساس ہے۔ اگر ہمیں ملک کو مشکل کیفیت سے باہر نکالنا ہے تو ماں بیٹیوں کو کردار ادا کرنا ہوگا، ایک ماں کو زیادہ احساس ہوتا ہے کہ بچے کا مستقبل کیا ہوگا، تعلیم کیسے ملے گی‘‘۔
شاہ محمود قریشی کے موروثی سیاست کو آگے بڑھانے کے اس عمل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، لوگوں کا کہنا ہے کہ بیٹے کی خالی سیٹ پر اْن ہی کی بیٹی متبادل امیدوار ہوسکتی ہے؟ دوسرے کیوں نہیں؟ یہ کیسا قحط الرجال ہے کہ پوری پارٹی میں کوئی سیاسی کارکن ایسا نہیں ہے جو شاہ صاحب کی بیٹی کی قابلیت کے قریب بھی ہو! اور اس حلقے میں نہ ہی کوئی ایسا ہے جس کو اگلی نسل کا احساس ہو! شاہ محمود قریشی کے خاندان کے کئی لوگ صرف اپنے مضبوط پس منظر کی وجہ سے سیاست میں مختلف جماعتوں کے ساتھ منسلک ہیں۔ ان کے بھائی مرید حسین قریشی پیپلز پارٹی میں ہیں، بہنوئی پیر شجاعت حسین قریشی اور بھانجا ظہور حسین قریشی مسلم لیگ (ق) میں ہیں۔ نوازشریف خاندان تو تاریخی طور پر ہی موروثی ہے، وہ خود پارٹی سربراہ تھے، جب نااہل ہوئے تو ان کے بھائی شہبازشریف ہی پوری پارٹی میں اہل ٹھیرے، پھر یہ بھی ہوا کہ بڑا بھائی وزیراعظم تھا تو چھوٹا بھائی وزیراعلیٰ رہا، پھر بیٹی مریم نواز کو نون لیگ کے اہم سیاسی رہنمائوں کو نظرانداز کرکے اوپر لایا گیا۔ شہباز شریف وزیراعظم بنے تو اپنی خاندانی تاریخ کو دہراتے ہوئے انہوں نے بیٹے کو وزیراعلیٰ بنادیا، لیکن قسمت خراب نکلی اور پنجاب کی سیاست میں تبدیلی آگئی۔ خاندان کی اس فہرست میں بھانجا عابد شیر علی، داماد کیپٹن (ر) صفدر، سمدھی اسحاق ڈار بھی موجود ہیں۔ اس ملک کی موروثی اور خاندانی سیاست میں پیپلز پارٹی بھی صفِ اوّل کی سیاسی جماعتوں میں سے ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بیٹی بے نظیر بھٹو، اور اْن کی ہلاکت کے بعد اْن کے شوہر شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور بلاول چیئرمین ہیں۔ پھر ملتان ہی سے ایک اور سید یوسف رضا گیلانی کا خاندان پیپلز پارٹی میں ہے، جہاں گیلانی اور فنکشنل لیگ کے سید صبغت اللہ راشدی آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ مخدوم احمد محمود نے اپنی صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر یوسف رضاگیلانی کے بیٹے سید عبدالقادر گیلانی کو الیکشن جتوایا۔ اسی طرح چودھری شجاعت سے پہلے ظہور الٰہی اور اب پرویزالٰہی اور مونس الٰہی ہیں۔ ملکی سیاست کے دو اہم کھلاڑی جہانگیر ترین اور ہمایوں اختر خان بھی آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ اے این پی میں نسیم ولی خان، اسفندیار ولی خان اور اب ان کے بیٹے ایمل ولی خان پارٹی کی صوبائی قیادت سنبھالے ہوئے ہیں۔ اسی طرح نواب آف کالا باغ کی پوتی اور سابق صدر فاروق لغاری کی بھانجی سمیرا ملک مسلم لیگ (ن) میں ہیں۔ ان کے چچا زاد بھائی ملک عماد خان پیپلز پارٹی کے وزیر ہیں۔
دیکھا جائے تو یہ چند خاندان ہی ہمارے ملک کے زوال کی علامت بن کر ہم پر مسلط ہیں۔ یہ موروثی سیاست کی دیگ کے چند دانے ہیں اور ان سب کے آپس میں جڑے اور مسلط رہنے کی بڑی طویل فہرست ہے۔ ہمارے ملک کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ موروثی یا خاندانی سیاست کو خوب زور شور کے ساتھ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے مگر عملاً اس حمام میں معدودے چند کے سوا سبھی ننگے ہیں۔ جماعت اسلامی قومی جماعتوں میں سرفہرست ہے جو موروثیت سے پاک صاف ہے، اور اس کے اندر اپنا ایک مکمل صاف ستھرا انتخابی نظام ہے۔
عمران خان موروثی سیاست سے فی الحال پاک ہیں اور سخت الفاظ میں اس پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ ماضی میں انہوں نے نوازشریف کے نااہل قرار دیے جانے کے بعد ’یوم تشکر‘ منایا تھا، اور اْس وقت شہباز شریف کا نام بطور وزیراعظم تجویز کیے جانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا: ’’کیا تمہاری (نوازشریف کی) سیاسی جماعت میں وزیراعظم کے عہدے کے لیے کوئی اور شخص نہیں؟ یہ جمہوریت نہیں، بادشاہت ہے‘‘۔ لیکن پھر نظریہ ضرورت کے تقاضے کے تحت جہانگیر ترین کی نااہلی کے بعد خالی ہونے والی نشست پر اْن کے صاحب زادے علی ترین کو ٹکٹ دیا گیا، جس پر انہیں سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات میں بھی تحریک انصاف کے کارکنان کا الزام رہا ہے کہ انتخابات کے دونوں مرحلوں میں پارٹی میں اقربا پروری کی بنیاد پر ٹکٹ جاری ہوئے تھے، کیونکہ کئی ایسے امیدواروں کو ٹکٹ ملا جو کسی رکنِ قومی یا صوبائی اسمبلی کے رشتے دار تھے۔ ہماری اقتدار کی سیاست میں چند خاندان اور کچھ لوگ بھی اِدھر اْدھر ہوتے رہتے ہیں، یہی ہماری نام نہاد جمہوریت ہے اور یہی ہماری سیاست ہے۔ اس وقت سیاسی عمل اور کھیل میں شامل لوگوں میں سو ڈیڑھ سو افراد ایسے ہیں جو پچھلے 20، 30 سال میں مستقل سیاسی جماعتیں بدلتے رہے ہیں، وہ ان ہی چند خاندانوں میں سے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات ٹھیک ہے کہ کسی کو سیاست کرنے اور اقتدار کے ایوانوں میں آنے سے اس لیے نہیں روکا جاسکتا کہ اس کا باپ، بھائی، بیٹا بھی سیاست میں کسی اہم مقام پر ہے۔ لیکن اصول و معیار میرٹ ہونا چاہیے جو بدقسمتی سے ہمیں ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹوز نے ماضی میں پاکستان کی موروثی سیاست کا موازنہ چند دوسرے ممالک سے کیا تھا۔ ان کے مطابق امریکی کانگریس میں 1996ء میں موروثی سیاست کا حصہ تقریباً 6 فی صد تھا، بھارت کی لوک سبھا میں 2010ء تک 28 فی صد، جبکہ پاکستان کی قومی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں موروثی سیاست دانوں کا حصہ 53 فی صد تھا‘‘، جو آج بھی کم بیش وہی ہے اور ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر موروثی یا خاندانی سیاست کا حصہ ہمارے یہاں پچاس فی صد تک ہے جو جمہوری پس منظر میں تشویش ناک حد تک زیادہ ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم معاشی، سیاسی، سماجی اور علمی طور پر بڑے خیال اور ویژن کے ساتھ آگے بڑھنا ہے اور ملک کو بہتر قیادت فراہم کرنی ہے تو آئندہ ’’پدرم سلطان بود اور دخترم سلطان بود‘‘ یعنی ’’ہم نہیں تو ہماری نسلیں ہی سہی‘‘ کی سیاست کے گندے دھندے سے اپنی جمہوریت کو پاک کرنا ہوگا اور وطنِ عزیز میں نظریاتی اور اصولی سیاست کو فروغ دینا ہوگا۔