…!!!آئی ایم ایف کی معاشی غلامی

938

وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے استفسار کیا ہے کہ یہ کیسی آزادی ہے کہ ہم معاشی طور پر آئی ایم ایف کے غلام ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ خداداد ملک پاکستان ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے صوبہ خیبر کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خاں میں سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے لگائے کیمپوں کے دورے کے موقع پر متاثرین سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، سیلاب زدگان کی بحالی اور دل جوئی کے لیے بہت سی باتوں اور اقدامات کے اعلانات کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن ممالک کو ہم حقارت سے دیکھتے تھے اور جو ہم سے بہت پیچھے تھے وہ محنت، امانت، دیانت اور اتحاد سے ہم سے آگے نکل گئے، اسوہ حسنہ اور ہمارے دین کا یہی درس ہے، پاکستان لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں سے وجود میں آیا ہجرت کے دوران ان کے لہو سے دریا کا پانی سرخ ہوا، ہم سب کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا کہ ہم نے پاکستان کو کیا دیا، یہ ہمارے لیے لمحہ فکرہے کہ وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود آج ہم معاشی طور پر آئی ایم ایف کے غلام ہیں، یہ کیسی آزادی ہے، اگر تمام سیاسی اور مارشل لاء حکومتیں درد دل سے کام لیتیں تو یہ حالات نہ ہوتے، ہمیں قرآن رزق کی تلاش کے لیے نکلنے کا حکم دیتا ہے، قرآن کی روح دکھی انسانیت کی خدمت ہے، انہوں نے کہا کہ 22 کروڑ عوام سے کہتا ہوں کہ اگر ہم باہمی اتحاد، دیانت اور امانت سے کام لیں گے تو پاکستان قائد اعظم کے خواب کے مطابق عظیم سے عظیم تر ملک بنے گا اور کوئی مشکل اور پہاڑ اس کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکے گا۔‘‘ جناب وزیر اعظم کے ان ارشادات سے کوئی ذی شعور شخص اختلاف نہیں کر سکتا مگر ظلم یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے کردار اور گفتار میں یکسانیت اور ہم آہنگی کا فقدان ہمارے آگے بڑھنے ، ترقی کرنے اور مسائل سے نجات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مفکر اسلام، مصور پاکستان، شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے اسی کیفیت کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا تھا ؎
اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا غازی بن تو گیا، کردار کا غازی بن نہ سکا
یہ موجودہ وزیر اعظم جناب محمد شہباز شریف ہی کا معاملہ نہیں ان سے پہلے کے بھی جس حکمران کی باتوں کا تجزیہ کریں گے معاملے میں خاصی یکسانیت پائی جائے گی۔ قرآن حکیم میں رب کائنات کا بڑا واضح فرمان ہے کہ ’’وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں، اللہ تعالیٰ کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں۔‘‘ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اس شدید وعید کے باوجود ہم بحیثیت قوم اور خصوصاً ہمارے حکمران علامہ اقبال کے بقول گفتار کے غازی بنتے تو دیر نہیں لگاتے اور نہایت اعلیٰ تقاریر اور اصولی باتیں بہت روانی سے کرتے چلے جاتے ہیں مگر جب عمل پیش کرنے کا موقع آتا ہے تو دامن خالی دکھائی دیتے ہیں۔ وزیر اعظم کی سیلاب متاثرین سے سطور بالا میں نقل کی گئی گفت گو کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، ان کا یہ ارشاد بلاشبہ حقیقت پر مبنی اور بجا طور پر باعث تشویش و تکلیف ہے کہ آزادی کے دعوئوں کے باوجود ہم عملاً آئی ایم ایف کی معاشی غلامی کے ایسے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں کہ اس دلدل سے نکلنا ناممکن نہیں تو محال ضرور دکھائی دیتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ مملکت خداداد کو غلامی کی اس دلدل میں دھکیلنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ برس ہا برس سے اس مملکت خداداد، اسلامی جمہوری پاکستان میں جناب وزیر اعظم کی جماعت بلکہ ان کا خاندان ہی اقتدار کے ایوانوں میں براجمان رہا ہے یا وہ لوگ ان ایوانوں میں پائے گئے ہیں جنہیں ماضی میں اگرچہ وزیر اعظم محمد شہباز شریف ذاتی طور پر اور ان کی جماعت کے دیگر رہنما ’’علی بابا چالیس چور‘‘ قرار دیتے رہے انہیں سڑکوں پر گھسیٹنے اور ان کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی قومی دولت وصول کرنے کے دعوے کرتے رہے ہیں مگر قدرت کی یہ ستم ظریفی ہے کہ آج وہی چور، لٹیرے اور ڈاکو مسند اقتدار پر ان کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ اس طرح اگر گزشتہ ساڑھے تین پونے چار سال کے عرصہ کو نکال دیا جائے تو ملک جناب وزیر اعظم کے خاندان یا ان کے موجودہ اتحادیوں ہی کے زیر نگین رہا ہے، ایسے میں ملک کی موجودہ معاشی غلامی کی ذمہ داری وہ شریف خاندان یا اپنے موجودہ اتحادیوں کے علاوہ کسی دوسرے پر عائد نہیں کر سکتے اور آج بھی ان کی حکومت عالمی ساہوکار آئی ایم ایف کی کڑی سے کڑی شرائط جس آسانی سے قبول کرتی چلی جا رہی ہے اس کے نتیجے میں کیا معاشی غلامی کی زنجیریںسخت سے سخت تر نہیں ہوتی چلی جائیں گی۔ وزیر اعظم اور ان کی حکومت کی اس دو عملی کو آخر کیا نام دیا جائے کہ ایک جانب عوام میں گفت گو کرتے ہوئے وہ معاشی غلامی کی لعنت کی مذمت کرتے سنائی دیتے ہیں اور دوسری جانب اپنے عمل سے غلامی کے اسی طوق کو ہنسی خوشی مضبوط سے مضبوط تر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
وزیر اعظم جناب شہباز شریف کو بخوبی یاد ہو گا کہ کچھ برس قبل جب ان کے برادر بزرگ اور قائد مسلم لیگ جناب نواز شریف وزیر اعظم اور وہ خود وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو جناب نواز شریف نے بھی معاشی غلامی کو ملک و قوم کے لیے لعنت قرار دیتے ہوئے اس سے نجات کی خاطر قوم سے قربانی کا تقاضا کیا تھا جس کے جواب میں خاصی بڑی تعداد میں عطیات عوام کی طرف سے پیش کئے گئے تھے تاکہ میاں نواز شریف ’’قرض اتارو… ملک سنوارو‘‘ کے نیک مقصد میں کامیاب ہو سکیں اور ملک کو بیرونی قرضوں اور اقتصادی غلامی سے نجات مل سکے مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہو سکا ورنہ وزیر اعظم شہباز شریف ملک کی آزادی کے پون صدی اور 75 ویں یوم آزادی کے موقع پر یہ استفسار نہ کر رہے ہوتے کہ یہ کیسی آزادی ہے کہ ہم معاشی طور پر آئی ایم ایف کے غلام ہیں۔ حقائق کی روشنی میں وزیر اعظم کا یہ ارشاد اور استفسار درست اور برمحل بھی ہے مگر کیا قوم بھی ان سے یہ پوچھنے میں حق بجانب نہیں کہ جو خطیر رقم ’’قرض اتارو… ملک سنوارو‘‘ کے نام پر عوام سے جمع کی گئی وہ کہاں گئی تھی وہ آخر کہاں گئی؟ اس سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قرضے کیوں نہ اتر سکے؟ اور ملک کو آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی ساہوکاروں کی معاشی غلامی سے آزادی کیوں نصیب نہ ہو سکی…؟؟؟یقینا یہ رقم بھی اسی طرح غت ربود ہو گئی ہو گی جس طرح مشرقی پاکستان سیلاب فنڈز، زلزلہ زدگان فنڈ اور کورونا سے متعلق فنڈز غائب ہو گئے ۔ در اصل قوم دوہری غلا می میں ہے ۔اس پر آئی ایم ایف کے غلام مسلط ہیں اور وہ قوم کو غلام بنائے بیٹھے ہیں ۔