تباہ حال کراچی کا المیہ

445

کراچی میں بارش کے بعد پہلے سے تباہ حال سڑکوں شاہراہوں کی حالت مزید خراب ہوگئی ہے، اہم شاہراہوں اور سرکاری اداروں سے متصل سڑکیں، ہائوسنگ سوسائٹیاں، مارکیٹیں، کھیل کے میدان اور قبرستان بارش اور سیوریج کے پانی میں ڈوبے ہیں، جہاں سے پانی خود اپنا راستہ بناتے ہوئے نکل بھِی گیا ہے تو وہاں کیچڑ اور غلاظت آج بھی موجود ہے جو تعفن پھیلنے کا باعث بن رہا ہے۔ سندھ حکومت کی نا اہلی و ناقص کارکردگی نے پورے شہر کو کھنڈر اور گندے پانی کے جوہڑ میں تبدیل کردیا ہے۔ بدقسمتی سے اشرافیہ اور بدترین حکمرانوں سب نے مل کر اس ملک کو تباہ کیا ہے، اور سب سے زیادہ تباہ کراچی ہوا ہے جو کبھی سب سے خوب صورت شہر تھا۔ اس شہر کے رکھوالوں نے اس شہر کو رہائش کے قابل بھی نہیں رہنے دیا ہے۔ کراچی کی تباہی قومی مسئلہ بن چکا ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جو صنعتی و اقتصادی دارالحکومت بھی تصور کیا جاتا ہے، لیکن شہریوں میں یہ احساس کیوں ہے کہ اس شہر کا کوئی والی وارث نہیں ہے؟ اس شہر کا انتظامی ڈھانچہ جس طرح تباہ ہوا ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ کراچی کی اہمیت کئی زاویوں سے ہے۔ یہ شہر پاکستان کا پہلا دارالحکومت تھا جسے بانیِ پاکستان کی جائے پیدائش ہونے کا فخر بھی حاصل ہے۔ یہ شہر قدرتی بندرگاہ ہونے کی حیثیت سے عالمی تجارتی سمندری راہداری پر بھی واقع ہے۔ اسی کے ساتھ تزویراتی اہمیت یہ بھی رہی ہے کہ یہ جنوبی ایشیا، وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے سنگم پر واقع ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہونے والی سرد جنگ ہو جو تہذیبِ مغرب کے دو بچوں سرمایہ داری اور کمیونزم کے مابین لڑی گئی، یا سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سرمایہ داری کے امام امریکا کی یک قطبی سامراجیت کا فساد ہو… کراچی کی تزویراتی اہمیت میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس لیے کہ عالمی سطح پر جو بھی کش مکش ہو، چاہے وہ سیاسی بالادستی کی جنگ ہو، یا دنیا کے وسائل پر لوٹ مار کی کش مکش… ان جنگوں کے پس منظر میں نظریات اور عقیدے کی جنگ ہمیشہ کارفرما رہتی ہے۔ کراچی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ عالمِ اسلام کے چند بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔ اس شہر کے باشندوں کا ملّت کے ساتھ رابطہ اہم خصوصیت ہے۔ جدید صنعتی و تجارتی شہر ہونے کے باوجود اس شہر کا اصل مزاج مذہبی ہے۔ اس شہر کی مذہبی اور دینی شناخت عالمی سامراجی طاقتوں، اْن کے ذہنی غلاموں اور مفاداتی آلہ کاروں کو ہمیشہ ناگوار رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دشمن تو دشمنی کرتا ہے، دوستوں نے اور خود اپنوں نے اس شہر کو کیوں تباہ کیا ہے؟ اس شہر نے کتنے ادارے بنائے، جو بعد میں تباہ کردیے گئے۔ سب سے بڑی سازش جو اپنوں نے کی وہ اس شہر کی سیاسی بیداری کی شناخت کا خاتمہ ہے۔ اس شہر کو نظرانداز کرنے کا پہلا مظاہرہ اْس وقت ہوا جب پاکستان کے پہلے فوجی آمر نے کراچی سے دارالحکومت راولپنڈی کے پڑوس میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان براہِ راست رابطے کا ذریعہ ختم ہوگیا۔ اس فیصلے نے سقوطِ مشرقی پاکستان کی بنیاد ڈالی۔ کراچی اگر مستقل دارالحکومت رہتا تو آمرانہ نظامِ حکومت کا تسلسل برقرار رکھنا اتنا آسان نہیں ہوتا، جتنا اب ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود فوجی و سیاسی آمریت کے خلاف جدوجہد میں کراچی سب سے آگے رہا۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ کراچی سے دارالحکومت کی منتقلی کے فیصلے کے پیچھے امریکی مشیر تھے جن کے خیال میں کراچی کے بیدار مغز شہری اسلام دشمن، عوام دشمن حکومتی اقدامات اور فیصلوں کو نظرانداز نہیں کرسکیں گے۔ فوجی آمریت کے طرزِ حکمرانی کا ایک اہم اصول یہ بے اصولی تھی کہ باکردار، نظریاتی اور اصول پسند سیاسی شخصیات کو سیاست میں غیر موثر کیا جائے۔ اس پالیسی کے تحت جب اصول پسند، آزاد ذہن شخصیات قبول نہیں تو ایک ایسا شہر کیسے قابلِ برداشت ہوسکتا ہے جو اپنے مزاج کے اعتبار سے آزاد اور مزاحمت پسند ہو! اس شہر کا سیاسی کردار ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو جیسی فوجی اور سول آمریتوں کے خلاف کامیاب مزاحمت کرسکا۔ یہ شہر اپنے ملّی کردار کی وجہ سے عالمِ اسلام کے مظلوم مسلمانوں کی آواز بھی بنتا رہا ہے۔ اس شہر کے ساتھ سب سے بڑا ظلم اْس وقت ہوا جب اس شہر کے اپنے لوگوں نے دشمنوں کے ایما پر نظریاتی اور اسلامی شناخت کو نسلی شناخت میں تبدیل کردیا۔ ملک و ملت کے دشمنوں کا تو کام آسان ہوگیا اور شہر کی حقیقی شناخت گم ہوگئی، لیکن اس کی قیمت بہت بڑی ادا کرنی پڑی۔ وہ شہر جو پاکستان کا سب سے تعلیم یافتہ شہر تھا، جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا وہ تاریکی میں ڈوب گیا۔ دہشت گردی، بھتا خوری، بوری بند لاشیں، اسٹریٹ کرائم شہر کی شناخت بن گئے، یہاں تک کہ وہ ڈھانچہ بھی منہدم ہوگیا جس کی بنیاد پر ایک شہر کھڑا ہوتا ہے۔ ہماری مراد بلدیاتی اور شہری نظام سے ہے۔ صرف ایک بارش نے یہ بتادیا کہ نکاسیِ آب کا نظام تک منہدم ہوچکا ہے۔ اس تباہی و بربادی کے بعد معلوم ہوا کہ اب کراچی میں کوئی نظام بھی موجود نہیں ہے۔ کراچی کی تباہی کے عمل کی انتہا اْس وقت ہوئی جب امریکا کو اپنی ’’وار آن ٹیرر‘‘ کی سیاسی حمایت کے لیے سیکولر جماعتوں کی ضرورت پیش آئی، کراچی کی سطح پر سہ رنگی اتحاد وجود میں آیا جو ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی اور اے این پی پر مشتمل تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ٹارگٹ کلنگ اور بھتا خوری اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ قومی سیاست نسلی اور صوبائی سطح پر تقسیم ہوگئی۔ شہر میں ایسی بدامنی تھی جس نے ہر تعمیری قوت کو محدود کردیا۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بنیادی شہری ڈھانچے کی تعمیر ہی سب سے بڑا قومی مسئلہ بن گیا ہے، اب یہ آواز ہر سطح پر گونج رہی ہے کہ اس شہر کے ساتھ ظلم کیا گیا ہے۔ اس شہر کا المیہ ہی یہ ہے کہ اسے ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کسی نے اپنا نہیں سمجھا اور اس کے ساتھ ظلم ہوتا رہا۔ اس وقت شہر میں جہاں فوری ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے وہاں بڑی تبدیلی کی ضرورت بھی ہے اور یہ تبدیلی فوری بلدیاتی انتخابات کے ذریعے ہی آسکتی ہے، لیکن اس ضمن میں یہ خبریں بار بار ادھراْدھر سے آرہی ہے کہ سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے، اس پر جماعت اسلامی کا کہنا بالکل درست ہے کہ بلدیاتی انتخابات یوم عاشورہ محرم الحرام کے بعد کروائے جاسکتے تھے، الیکشن 14اگست سے قبل اور فوری بعد بھی ہوسکتے ہیں لیکن 28اگست کو الیکشن کی تاریخ مقرر کرنا کسی سازش کا حصہ معلوم ہوتی ہے، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شہر کے لوگوں کو بلدیاتی قیادت سے محروم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ کراچی کے ساتھ بڑا ظلم ہوگا اور کراچی بڑے انتشار کی طرف بڑھے گا جس کا خمیازہ پورے ملک کو بھگتنا ہوگا۔ کراچی سے دارالحکومت چھینا گیا ظلم کے خلاف مزاحمت چھین لی گئی اور سب سے بڑھ کر نظریاتی شناخت مٹا دی گئی۔ اگر شہر کو نظریاتی قیادت مل بھی گئی تو شہر کا بنیادی ڈھانچہ از سر نو تعمیر کرنے میں کم از کم دس سال لگیں گے۔ بشرطیکہ پھر کوئی مداخلت نہ ہو یا کسی ایجنٹ کو مسلط نہ کیا جائے۔