افسوسناک اور دلخراش خبروں کا تسلسل

472

پچھلے پندرہ بیس روز سے اندوہناک حادثات، دلخراش واقعات، افسوسناک اور ناخوشگوار خبروں کا تسلسل قائم ہے ابھی ایک خبر کا غم کم نہیں ہو پاتا کہ دوسری سننے کو مل جاتی ہیں ان بری خبروں اور سانحات میں ہماری انفرادی لغزشیں کیا کیا ہیں، حکومتوں کی نااہلی اور مجرمانہ غفلت کا اس میں کتنا عمل دخل ہے اور ویسے قدرتی حادثات نے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر کتنا متاثر کیا ہے۔ ویسے تو ہر ملک میں وہاں کے عوام کو کچھ ناخوش گوار خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ اپنے ملک کے حوالے سے بات کہاں سے شروع کریں کہ یہ ایک اہم نکتہ ہے چلیے بات وہاں سے شروع کرتے ہیں جب سے اپریل کے مہینے میں حکومت تبدیل ہوئی ہے اس کے مختلف مراحل میں پوری قوم تو ایک تماشائی کی حیثیت سے سب کچھ دیکھ رہی تھی لیکن ان ہی مراحل میں کبھی کوئی بات یا فیصلہ کسی پارٹی کے حق میں ہوتا تو اس سے وابستہ لوگ خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے اور اس کی مخالف پارٹی کے لوگ غم و غصے کا۔ حکومت کی تبدیلی کے دوسرے دن جب لوگ سابق وزیر اعظم کے حق میں پر جوش انداز میں باہر نکلے تو یہ اس بات کا اظہار تھا کہ پاکستانی عوام کی اکثریت نے اس تبدیلی کو قبول نہیں کیا۔
حکومت کی اس تبدیلی کے بعد عوام کو جو سزا بھگتنی پڑی وہ بہت ہی خوفناک تھی کہ پٹرول، گیس اور بجلی اتنی مہنگی ہو گئی کہ لوگوں کی چیخیں نکل گئیں سابق حکومت کے ساڑھے تین سالہ دور میں اتنی مہنگائی نہیں ہوئی تھی جتنی اس نئی حکومت کے ساڑھے تین مہینوں میں ہو گئی۔ ہر صبح ہم جب سو کر اٹھتے ہیں تو کسی نہ کسی چیز کی قیمتیں بڑھ چکی ہوتی ہیں، بارہ جماعتی اتحادی حکومت کے لوگ خود پریشان ہیں کہ ان کا خیال تھا کہ حکومت لینے کے بعد ہم معاشی ابتری پر قابو پالیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا انہیں تو لینے کے دینے پڑ گئے پوری دنیا جانتی ہے کہ یہ ایک کمزور حکومت ہے جو چند ووٹوں پر کھڑی ہے اس لیے کمزور حکومت کو ہر کوئی دبائو میں لینے کی کوشش کرتا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان سے اپنی کڑی شرائط تو منوالیں لیکن اب تک قرض کی قسط کا چیک جاری نہیں کیا اور اس وجہ سے پاکستان دیوالیہ کے قریب جارہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب پاکستان نے جرمنی کو قرضہ دیا تھا آج ہم کشکول لیے ہر جگہ گھوم رہے ہیں، دل خون کے آنسو روتا ہے کہ جب ہمارا کمانڈر ان چیف امریکا کو فون کرکے کہتا ہے کہ آئی ایم ایف سے چیک دلایا جائے وہ امریکا جو F-16 کے پیسے کھائے بیٹھا ہے کہ جہاز بھی پورے نہیں دیے اور اس کی رقم بھی واپس نہیں کی اس صورتحال میں موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے عوام کو کوئی اچھی خبریں شاز ونادر ہی سننے کو ملیں گی ہمیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ پتا نہیں کس وقت کسی چیز کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے۔ ایسا کیوں ہوا اس کا ذمے دار کون ہے یہ اس وقت کا ہمارا موضوع تو نہیں ہے بات پھیل جائے گی اور اصل نکات رہ جائیںگے بس یو ں سمجھ لیجیے کہ ہم عوام ہی اس کے ذمے دار ہیں کہ جن لوگوں نے ہمارے پیسوں سے باہر اپنی جائدادیں اور بینک بیلنس بنائے ان ہی کو ہم ہر بار منتخب کرکے اپنے سروں پر بٹھاتے ہیں تاکہ وہ مزید کرپشن کریں۔
پچھلے ایک ماہ سے بارشوں نے عوام کو پریشان کیا ہوا ہے بلوچستان میں کافی جانی و مالی نقصان ہوا بچوں اور عورتوں سمیت ڈیڑھ سو
سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں ہمارے فوجی بھائی ان کی مدد کررہے تھے کہ کوئٹہ کے کور کمانڈر سمیت اعلیٰ فوجی افسران کے ہیلی کاپٹر کے حادثے کی روح فرسا خبر سننے کو ملی۔ ہیلی کاپٹر کا ملبہ موسیٰ گوٹھ لسبیلہ سے ملا، تمام افسران جاں بحق ہوگئے۔ بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا۔۔۔ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ بھی آگیا اب اس کے اوپر بحث و مباحثہ کا آغاز ہوگیا ہم اس موضوع پر سکوت اختیار کرتے ہیں۔ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتیں پھر بڑھ گئیں۔ ایک ہفتے پہلے ناتھ کراچی کے سیکٹر 7-Dسے دو دوست پکنک منانے کے لیے ہاکس بے گئے وہ وہاں پر نہا رہے تھے کہ پانی میں ڈوب گئے دونوں بچے حافظ تھے طالب علم تھے اور آپس میں دوست تھے دو دن بعد ان کی لاش ملی، ان بچوں کی جو غلطیاں تھیں وہ تو تھیں ہمارا حکومت سے یہ کہنا ہے کہ جب آپ بار بار قوم کو زیادہ بارشوں اور سیلاب کی اطلاع دے رہے تھے تو اس کے ساتھ ہی کراچی کی انتظامیہ کو ساحل سمندر کے تفریحی مقامات پر خصوصی انتظامات کرنے چاہیے تھا۔ 31جولائی اتوار کی صبح لیاقت آباد نمبر 5سے ایف سولہ والی گلی سے 6دوست ہاکس بے پر پکنک منانے گئے وہ تمام چھے دوست تیز لہروں کی زد میں آکر سمندر میں ڈوب گئے دو لڑکوں کو بچالیا گیا بقیہ چار میں سے دو کی لاشیں تو اسی دن مل گئیں تھیں تو اسی دن شام کو ان کی نماز جنازہ ہو گئی دوسرے دو ساتھیوں کی دوسرے دن پیر کو لاشیں ملیں پھر اسی دن رات کو ان کی نماز جنازہ ہوئیں۔ ایک ہفتے میںچھے کڑیل نوجوانوں کو سمندر کی بے رحم موجوں نے نگل لیا اللہ ان بچوں کی مغفرت فرمائے۔ اب جا کہ کراچی کی انتظامیہ نے ہاکس بے پر جانے کے تمام راستے بند کر دیے
صرف رہائشی لوگوں کو جانے دیا جارہا ہے عوام کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ جب اپنے خاندان کے ساتھ پکنک پر جارہے ہوں تو اپنے بچوں کو کنٹرول کریں بلکہ خاندان کے کسی ایسے ذمے دار کو ساتھ لے جائیں جس کی لوگ بات مانتے ہوں اور سمندر میں ایک حد سے آگے جانے کی انہیں اجازت نہ دی جائے۔ شادمان ٹائون کا وہ دو ماہ کا بچہ ابھی تک نہیں مل سکا جو اب سے تقریباً دس دن قبل انڈہ موڑ کے قریب پانی زیادہ ہونے کی وجہ سے بائیک گر گئی ایک بچی آگے ٹنکی پر تھی اسے تو باپ نے پکڑ کر بچا لیا لیکن پیچھے اس کی بیوی کے ہاتھوں سے بچہ چھوٹ گیا وہ اس کو بچانے کے لیے نالے میں کود گئی تھوڑی دیر بعد اس کی لاش تو مل گئی بچہ ابھی تک نہیں مل سکا۔
آخر میں ہمارے لیے تو ایک افسوسناک خبر یہ ہے کہ ابراج گروپ کے عارف نقوی کی عمران خان نے بڑی تعریفیں کی ہیں عارف نقوی کراچی میں پیدا ہوئے اور وہ کے الیکٹرک کے ذریعے کراچی والوں پر ظلم کررہے ہیں تین ارب سے زائد تانبے کے تار انہوں نے کراچی کی سڑکوں سے چرا لیے حافظ نعیم یہی تو بار بار مطالبہ کررہے ہیں کہ کے الیکٹرک تانبے کے چوری کیے ہوئے تاروں کی رقم جو تین ارب سے زائد بنتی ہے وہ کراچی کے شہریوں کو واپس کرے، ہمارے لیے افسوسناک خبر اس میں یہ ہے کہ عمران خان ن لیگ اور آصف زرداری پر یہی تو الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے قوم کا پیسہ چرایا ہے اس لیے ان سے ہاتھ ملانے کو دل نہیں چاہتا اور دوسری طرف وہ انٹر نیشنل چور عارف نقوی جس نے تانبے کے تار چوری کیے جس نے کے الیکٹرک کے ذریعے کراچی کی عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈال کر بیرون ملک اپنے اثاثے بنائے آج ہمارے سابق وزیر اعظم عمران خان اسی چور کے گن گا رہے ہیں۔