پی ٹی آئی کے خلاف الیکشن کمیشن کا فیصلہ

1476

پاکستان الیکشن کمیشن نے 8 برس بعد اس ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنا ہی دیا جو سماعتوں، وضاحتوں التوا اور گواہیوں کے مراحل سے 8 برس تک گزرتا رہا۔ 21 جون کو کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا گیا اور بالآخر منگل کے روز یہ فیصلہ سنا دیا گیا۔ مقدمہ پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر شیر بابر نے 14 دسمبر 2011ء کو الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کیا۔ جنوری 2015ء میں مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی اسی دوران عدالت عظمیٰ میں حنیف عباسی کے مقدمے میں یہ حکم الیکشن کمیشن کو دیا گیا کہ پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کے حسابات کی جانچ پڑتال کرے۔ پی ٹی آئی کا کیس الیکشن کمیشن کے پاس موجود تھا۔ اس کے بعد 2015ء سے مارچ 2018ء تک درجنوں سماعتیں ہوئیں اور یہ مقدمہ بالآخر ایک انجام کو پہنچا… لیکن یہ افسوسناک انجام ہے۔ اس اعتبار سے افسوسناک کہ ایک اور سیاسی پارٹی کا سربراہ حلفیہ غلط بیانی کرنے والا ثابت ہو گیا۔ الیکشن کمیشن نے فیصلہ دیا ہے کہ ممنوعہ فنڈز کے بارے میں عمران خان کا بیان حلفی غلط ہے۔ انہوںنے متعدد اکائونٹس چھپائے جو آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس نے 13 میں سے 8 اکائونٹس کی تصدیق کی۔ اس مقدمے سے جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے 34 امریکی شہریوں سمیت 351 غیر ملکی کمپنیوں سے فنڈز لیے۔ ان میں سب سے بڑا نام عارف نقوی کا ہے جو ابراج گروپ کے مالک ہیں۔جب کہ ووٹن کرکٹ کلب، برسٹل سروسز سے لیے گئے فنڈز کو بھی الیکشن کمیشن نے ممنوعہ قرار دیا۔ کمیشن نے اپنے فیصلے میں پی ٹی آئی کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا ہے کہ بتایا جائے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیوں نہ ضبط کی جائے۔ الیکشن کمیشن نے اس غلط بیانی فارم ون میں اکائونٹس چھپانے اور ممنوعہ فنڈز حاصل کرنے پر پی ٹی آئی کے خلاف ممکنہ قدم اٹھانے کا بھی حکم دیا ہے۔ یہ قدم کیا ہو سکتا ہے اس کی وضاحت تو نہیں ہوئی لیکن پارٹی پر پابندی، سربراہ کی تاحیات نااہلی اور تمام فنڈز سرکار کے خزانے میں جمع کرانے کے علاوہ دیگر تادیبی اقدامات بھی ہو سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ یہ بتایا جائے کہ کیوں نہ ممنوعہ فنڈز ضبط کر لیے جائیں۔ اس فیصلے کے بڑے وسیع اثرات ہوں گے۔ اس کے کسی حصے سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے لیکن مجموعی طور پر الیکشن کمیشن نے جو فیصلہ دیا ہے اس پر اگر اس کی روح کے مطابق عمل ہوا تو پاکستانی سیاست میں غیر ملکی مالی مداخلت اور فنڈنگ کے راستے بند ہوجائیں گے۔ اس فیصلے کے دو پہلو ہیں ایک پارٹی سربراہ کا حلفیہ بیان غلط قرار پانا۔ دوسرے پارٹی کے کئی سینیئر لیڈروں کا ممنوعہ فنڈز کے لیے اکائونٹس کو چلانا جس کا مطلب پارٹی بھی خطرے میں ہے۔ پارٹی کے 13 بے نامی اکائونٹس سامنے آئے ہیں۔ اس میں بھی دو خرابیاں ہیں۔ ایک تو غیر ملکی شہریوں اور کمپنیوں سے فنڈز لیے گئے اور اس پر غلط بیانات حلفی داخل کرائے گئے۔ ایک افسوسناک بات اس انکشاف میں یہ بھی ہے کہ جن غیر ملکیوں سے فنڈز لیے گئے ہیں ان میں بھارتی شخصیات رومیتا شیٹھی اور دیگر بھی شامل ہیں۔ جوں ہی فیصلہ آیا پی ٹی آئی کے رہنما اور مسلم لیگ و پیپلزپارٹی کے رہنما میڈیا پر آگئے، پی ٹی آئی والوں نے اپنی تمام فنڈنگ کو قانونی قرار دیا اور کہا کہ تمام ثبوت الیکشن کمیشن کو دے دیے تھے۔ لیکن الیکشن کمیشن ان سے مطمئن نہیں اس نے پی ٹی آئی کے بیانات حلفی کو بھی جھوٹا قرار دیا۔ اس وقت پی ڈی ایم والے بغلیں بجا رہے ہیں اور پی ٹی آئی والے وضاحتیں کر رہے ہیں۔ حالانکہ دونوں نہایت کمزور وکٹ پرکھڑے ہیں۔ یہ سمجھنا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارتی صاف ہیں اور صرف پی ٹی آئی غلط بیانی کر رہی ہے، خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تو وہ راستہ کھلا ہے کہ آنے والے دنوں میں دیگر بڑی پارٹیوں کے حسابات بھی کھولے جائیں گے۔ لیکن پی ٹی آئی اب ایسی پوزیشن میں ہے کہ اس کے رہنمائوں کے پاس دلائل نہیں ہیں۔ اس لیے وہ یہ مطالبات کر رہے ہیں کہ مسلم لیگ کا کیس بھی کھولا جائے۔ بالکل کھولنا چاہیے لیکن فیصلہ تو فی الوقت پی ٹی آئی کے خلاف آیا ہے۔ فواد چودھری نے دعویٰ کیا ہے کہ ہمارے باقی اکائونٹس بھی قانونی ہیں۔ حالانکہ الیکشن کمیشن نے اکائونٹس کو غیر قانونی قرار نہیں دیا بلکہ ان کو چھپانے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا اور ان میں آنے والے فنڈز کو ممنوعہ قرار دیا ہے۔ اس مقدمے کی کارروائی کو پی ٹی آئی نے 30 مرتبہ ملتوی کر ایا جب کہ الیکشن کمیشن کی ہدایات کے باوجود 21 مرتبہ کیس سے متعلق دستاویزات فراہم نہ کیں۔ اس مقدمے کا فیصلہ تو اب ہوا ہے لیکن پی ٹی آئی کی جانب سے اسے رکوانے اس مقدمے کو ختم کرانے کی کوششوں سے لگتا تھا کہ معاملات ٹھیک نہیں۔ چنانچہ 9 مرتبہ کیس کو ناقابل سماعت قرار دلوانے کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا اور 9 مرتبہ ہی اپنے وکیل بدلے۔ اور اب آخر حربہ فیصلے سے پہلے الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کی کال دینا۔ یہ ساری باتیں بتا رہی ہیں کہ پی ٹی آئی کے معاملات صاف نہیں یہ اس فیصلے کے نتیجے میں پارٹی سربراہ یا پارٹی بھی دونوں پر پابندی لگ سکتی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ پاکستان کی سیاست میں صاف ستھرے لوگوں کو آگے آنے ہی نہیں دیا جاتا۔ کیونکہ ایسے لوگ آگے آئے تو ان کے خلاف کون سا حربہ آزمایا جائے گا۔ پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کی جانب سے گزشتہ ایک عشرے سے چور چور، ڈاکو ڈاکو کی تکرار بڑی بلند آواز سے جاری تھی جس نے پی پی اور مسلم لیگ ن دونوں کے رہنمائوں کو دفاعی پوزیشن میں کھڑا کر دیا تھا۔ لیکن اس فیصلے کے بعد تقریبار سارے ہی باہر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے جرأت کی اور فیصلہ کر دیا لیکن اس فیصلے کا حشر بھی پاناما کیس کی طرح نہ ہو جائے۔ کہ ایک شخص کے خلاف فیصلہ ہونے کے بعد باقی تمام لوگوں کے مقدمات کی سماعت ہی نہیں ہوئی۔ اگر پاناما میں ملوث دیگر 36 افراد کے خلاف بھی مقدمات کی کارروائی ہوتی تو پاکستانی سیاست سے بہت سی غلاظت صاف ہو چکی ہوتی۔ لہٰذا الیکشن کمیشن قدم آگے بڑھائے اور دیگر پارٹیوں کے مقدمات کی سماعت بھی کرے۔ اس طرح پی ٹی آئی کا یہ مطالبہ تو مان لیا جائے گا کہ دوسروں کے مقدمات بھی کھولو۔ اس پر قوم کو مزید شرمندگی ہوگی لیکن ایک مرتبہ یہ شرمندگی برداشت کرلیں تاکہ عمر بھر کے لیے ملک ایسے سیاستدانوں اور پارٹیوں سے صاف ہوجائے۔ اس فیصلے سے یہ بھی پتا چل رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو لانے والوں کا فیصلہ بھی غلط تھا۔