سیاسی گفتگو کرنا منع ہے

550

آج ہمیں غیر معمولی سیاسی صورت حال کا سامنا ہے، یہ جملہ کل کی طرح آج بھی تازہ معلوم ہوتا ہے، سیاسی تاریخ کی گواہی ہے کہ یہ کبھی باسی نہیں ہوا، اس ملک میں احتساب کی پہلی خوراک جنرل ایوب خان نے سیاست دانوں کو پلائی تھی اور شرط کیا رکھی، جو ان کے ساتھ ہیں وہ کبھی بیمار تھے نہ ہوں گے، اور جو ان کے ساتھ نہیں، وہ کبھی تن درست تھے اور نہ آئندہ ہوں گے، یہ تھا ہمارا پہلا احتساب، ان کے بعد جنرل ضیاء الحق آگئے، پیپلزپارٹی دبک گئی، اور پاکستان قومی اتحاد نے حلوے کی دیگیں بانٹی، یوں سیاست دانوں نے جنرل ضیاء کا استقبال کیا اور انہیں خیر مقدم کہا حتیٰ کہ انہیں نجات دہندہ قرار دیا گیا، ان کے احتساب میں کیا ہوا، پیپلزپارٹی کے بیش تر وزراء پانچ سال کے لیے کسی بھی عوامی نمائندگی کے لیے نا اہل قرار پائے، اور ضیاء الحق نے سات سال تک ملک میں انتخاب ہی نہیں کرائے جب انتخاب کرائے یہ ان میں بیش تر پھر اسمبلیوں میں واپس آگئے، یوں وقت آگے بڑھتا رہا اور ایک دن جنرل مشرف آگئے، پھر احتساب کا نعرہ مستانہ بلند ہوا، احتساب بیورو بن گیا، لیکن اس کی کوکھ سے مسلم لیگ (ق) نے جنم لیا، جو سیاست دان مان گئے، اور بعیت پر راضی ہوگئے انہیں حکومت مل گئی اور وزارتیں بھی، جو نہ مانے، ان سے کہا گیا کہ تمہارے خیالات لغو اور فضول ہیں لہٰذا جائو اور فخر اور سیاسی بیانیے کو ویران چٹان کے تخت پر بٹھائو، اسمبلی میں آپ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں کل تھے، ایسا اس لیے ہو گیا ہے کہ آئین، قانون اب کمزور پڑ گئے ہیں اور سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ اور ان کی شخصیت حاوی ہوگئی ہیں۔
اصول یہ ہے کہ آئین اور قانون کو دیکھنا ہے کہ کون اسمبلی میں جانے کے قابل ہے مگر اب خود قانون یہ دیکھ رہا ہے کیا وہ کسی کے لیے قابل قبول ہے، ماضی میں جھانکیے یا حال کا جائزہ لیں، ملک میں ہر انتخابی ماحول ایسا ہی آیا کہ سیاست دان نے سیاست دان ہی کو چور، ڈاکو کہا، ایک دوسرے کے کپڑے اُتارے، سر بازار رسوا کیا، لیکن ہمیں احتساب نے کیا دیا؟ یہ نظام’’ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا‘‘ کی بہترین عملی تصویر بنا رہا، ان دنوں بھی ایک غیر ملکی اخبار فنانشل ٹائمز کی اسٹوری کی بڑی دھوم مچی ہوئی ہے، اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے وہی باتیں ہیں جو اکبر ایس بابر کی طرف سے بتائی گئی ہیں اور تفصیلات الیکشن کمیشن کے پاس موجود ہیں کیس کا فیصلہ کب ہوتا ہے، نہیں ہوتا ہے، کیسا ہوتا ہے؟ یہ سب باتیں بے معنی ہیں کچھ بھی ہو عمران خان کے پکے ہامی اس کے ساتھ جم کر کھڑے رہیں گے یہ معاملہ صرف تحریک انصاف کے ساتھ ہی نہیں، سب جماعتوں کے ساتھ ہے، جس نے ذرا بھی چوں چراں کی، تحریک انصاف کی اصطلاح کے مطابق وہ آج کل غدار ٹھیرتا ہے۔
تحریک انصاف چاہتی ہے کہ فارن فنڈنگ کیس میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) کا بھی فیصلہ آنا چاہیے تاکہ میچ دو دو گول سے برابر ہوجائے یا اسے کہنے کا موقع مل جائے کہ امپائر نے کمال دکھا دیا ہے، ایک وقت تھا کہ دنیا پر ہماری ہاکی کا راج تھا، مگر ہمیں اس وقت ایک امپائر رینو کا سامنا رہتا تھا، جس میچ میں رینو ہوتا بس یہ میچ پاکستان کے لیے مشکل ہی سمجھا جاتا تھا، بہر حال اب رینو کہاں؟ لیکن ایک نہیں بے شمار ہیں، جنہیں ہر فیصلہ دینے والا رینو ہی لگتا ہے، فارن فنڈنگ کیس میں بہت وقت لے لیا گیا ہے اس معاملے میں اہم بات یہ ہے کہ 2013 میں الیکشن فنڈنگ کیسے آئی؟ جب تحریک انصاف میں اندرونی انتخابات ہو رہے تھے 2013ء میں اس وقت پیسہ بہت آیا تھا اور بعض اکائونٹ میں خرابی سامنے آسکتی ہے اکبر ایس بابر تحریک انصاف کے فنانس کے شعبہ کے انچارج رہے لہٰذا ان کے پاس بہت کچھ ہے عارف نقوی کے معاملے امریکی حکام تک بھی معلومات پہنچی ہیں، اور یو اے کی اتھارٹی الگ سے تحقیقات کر رہی ہے اور یورپی ملک میں بھی تحقیقات ہو رہی ہے اس کی تفصیلات ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی ہیں۔
عارف نقوی نے کینسر اسپتال کے لیے انہیں بڑا پیسا دیا، تحریک انصاف کو یہ پیسہ سیاسی فنڈریزنگ سے ملا، جس کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس 40 ہزار ڈونرز کا ڈیٹا ہے، الزامات اور جوڑ توڑ کی اس غیر سنجیدہ سیاست نے سیاسی عدم استحکام کو پر وان چڑھایا ہے، ایک نیا منظر ہمارے سامنے ہے، یہ منظر بھی کوئی خیر کی خبر نہیں دے رہا، عدالت عظمیٰ کے ججوں نے تازہ ترین فیصلہ کے ذریعے جانبداری اور ایک نئی نوعیت کی سیاسی انجینئرنگ کا جو تاثر مستحکم کیا ہے، آئین انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے درمیان اختیارات تقسیم کرتا ہے۔ ریاست کا کوئی بھی ستون ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتا البتہ تازہ ترین تجربہ بھی ناکام ہوچکا ہے یہ کس نے تخلیق کیا تھا؟ اس بارے میں سوال کرنا منع ہے، بالکل اسی طرح جس طرح حجام کی دکان پر لکھا ہوتا ہے سیاسی گفتگو کرنا منع ہے۔