اور اب عدلیہ کی باری

677

پاکستان میں اسمبلیوں، سیاستدانوں اور وکلا کے بارے میں اشتباہ اور ابہام پیدا کرکے ان کے سچے اور جھوٹے جرائم کی بنیاد پر ان تمام ہی شعبوں کو بدنام کیا گیا اور اب سیاستدانوں کا نام تو خاص طور پر غیر معتبر لوگوں کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ بھی اگر کوئی ادارہ قومی مسائل پر معقول اور درست رویہ اختیار کرتا ہے تو اس کا بھی یہی حشر ہونے لگتا ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ معقول اور درست کے بجائے اَن دیکھے لوگوں اور طاقت کے مراکز کی مرضی کے برخلاف کام کرنے لگے تو اس کو بھی اسی طرح بدنام اور بے وقت کردیاجاتا ہے۔ یہ سوال کرنے کی اب پاکستان میں بھی ضرورت نہیں رہی۔ اب سب جانتے ہیں کہ کہاں سے کیا ہورہا ہے۔ کبھی کبھی لوگ عدلیہ سے توقعات باندھ لیتے ہیں کہ وہ کوئی اچھا کام کرے گی یا اس کے پاس جائیں گے تو انصاف ہی مل جائے گا لیکن اب عدلیہ کے بارے میں بھی شکوک و شبہات بڑھ چڑھ کر سامنے آرہے ہیں یا لائے جارہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ عدلیہ کو پنجاب کی وزارت علیا سے متعلق فیصلے کے بعد انتشار کا شکار کیا جارہا ہے لیکن دراصل پورے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کنٹرولڈ ڈیموکریسی کی طرح کنٹرولڈ انتشار ہے۔ ہر ادارے کی باری ایک نظام کے تحت آرہی ہے۔ کبھی کبھی کسی ادارے کی باری پہلے سے طے شدہ وقت سے پہلے آجاتی ہے اور کبھی بعد کے لیے موخر کردی جاتی ہے لیکن یہ ساری کیفیت مکمل کنٹرول میں ہے۔ مرحوم ادریس بختار سے کسی نے سوال کیا تھا کہ ملک میں بڑی افراتفری ہے ملک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تو انہوں نے یہی جواب دیا تھا کہ سب کچھ کنٹرول میں ہے۔ کرنے والوں کے… اور یہی کچھ عدلیہ کے ساتھ
ہورہا ہے۔ جب عدلیہ میں اعلیٰ سطح پر اختلافات چوراہوں پر زیر بحث آئیں گے تو ادارے کا وقار بری طرح مجروح ہوگا۔ چند روز پہلے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ پنجاب کی وزارت علیا معاملہ عدالت عظمیٰ میں چلا گیا ہے تو اب مسئلہ دو ایک روز میں حل ہوجائے گا۔ دونوں میں سے کسی فریق کے خلاف فیصلہ ہوگا تو وہ اس پر اعتراض ہی کرے گا لیکن فیصلہ ماننا پڑے گا۔ اور فیصلہ حکمران اتحاد کی جانب سے فل کورٹ سماعت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد تین رکنی بنچ پر ہی عدم اعتماد کرکے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا گیا۔ اس بائیکاٹ سے عدالت کی قانونی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ معاملہ پی ڈی ایم نے سیاسی بنا کر الجھانے کی کوشش ضرور کی تھی، یہ معاملہ شاید اتنا پیچیدہ نہیں تھا جتنا قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری نہ کرانے پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف پیدا ہوا تھا۔ اس وقت ان ہی ججوں نے 12 بجے رات کو عدالت لگائی تھی تو یہی پی ڈی ایم والے خوشیاں منارہے تھے۔ فل کورٹ بنانے کا اختیار یا صوابدید بھی چیف جسٹس کی ہے اور چیف جسٹس نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے موقع پر بھی فل کورٹ نہیں بنائی تھی بلکہ اسی طرح ججوں نے فیصلہ دیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) نے جو موقف اختیار کیا اس نے عدلیہ پر بڑا الزام لگانے کی کوشش کی ہے۔ یعنی مسلم لیگ کے مخالف جج کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ گویا باقی ججز یا تو مسلم لیگ کے حامی ہیں یا کم از کم پی ٹی آئی کے مخالف ضرور ہیں اگر عدلیہ کے بارے میں ایسا تاثر قائم ہورہا ہے تو عدلیہ کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
عدلیہ ایک ایسا ادارہ ہے کہ اگر یہ پارلیمنٹ، وزرا اور اسٹیبلشمنٹ کے دبائو سے نکل جائے تو ملک صحیح راستے پر چل پڑے گا لیکن یہ کون ٹھیک کرے گا۔ اسمبلیوں کے معاملے میں تو مایوس کن صورت حال ہے کہ ان میں لوگ الیکٹڈ نہیں سلیکٹڈ زیادہ ہوتے ہیں۔ پھر وہ سارے کام ہدایت کے مطابق کرتے ہیں۔ عدلیہ کے بارے میں تیاریاں تو یقینا پہلے سے ہوں گی لیکن اختلافات پنجاب بحران کے بعد سامنے آئے ہیں۔ چیف جسٹس کو جسٹس فائز عیسیٰ قاضی کا خط میڈیا کی زینت بنا۔ سوال یہ ہے کہ یہ خط میڈیا تک کیسے پہنچا یہ تو چیف جسٹس کو لکھا گیا تھا۔ پھر ایک دو دن کے وقفے سے ایک اور تنازع سامنے آیا کہ چیف جسٹس کی جانب سے عدلیہ میں نئے ججوں کے تقرر کے لیے دیے گئے تمام نام جوڈیشل کونسل نے مسترد کردیے۔ ابھی اس کی بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ جسٹس فائز عیسیٰ کا ایک اور خط میڈیا میں آگیا اور اب اس کا مبینہ ترجمہ بھی گشت کررہا ہے۔ یہ سب کیا ہے۔ کون ہے جو چیف جسٹس کو لکھے گئے خطوط میڈیا تک پہنچاتا ہے؟ یقینا کوئی تو ہے جس کی پہنچ ان تمام مقامات پر ہے جہاں حساس معلومات ہوتی ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کونسل کے فیصلے اور اجلاس کی کارروائی میڈیا کو فوراً جاری کی جائے لیکن یہ تو میڈیا میں گشت کررہی ہے۔ البتہ کارروائی سرکاری سطح پر جاری ہونے
سے جھوٹ اور افواہیں بند ہوجائیں گی۔ پنجاب کی وزارت علیا کے معاملے میں جس چیز نے خرابی کو ہوا دی وہ ایک پرانی خرابی ہے جو گزشتہ دس پندرہ برس سے بہت زیادہ پھیل چکی ہے اور وہ ججز کے غیر ضروری ریمارکس ہیں۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ جج نہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ لیکن معاملہ اب برعکس ہوگیا ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ عدالتی کارروائی کے دوران تقریباً ہر جج کے لیے ایسے ریمارکس دینا کیوں ضروری ہوتا ہے کہ وہ اخبارات اور ٹی وی چینلوں میں بریکنگ نیوز بنیں۔ میاں نواز شریف کے خلاف سسلین مافیا اور گارڈ فادر کی اصطلاح بھی استعمال ہوئی جس کی بازگشت آج تک سنی جاتی ہے۔ لیکن خرابی اس بات سے ہوتی ہے کہ عدالت کی پہلی سماعت میں ایسے ریمارکس دیے جاتے ہیں جن سے عدالت کے موڈ کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرنے جارہی ہے۔ یہی معاملہ پنجاب کے کیس میں بھی ہوا، ججوں کے ریمارکس سے لگ رہا تھا کہ فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آنے والا ہے۔ اگر ججوں کے بجائے تین دن بعد ان کا فیصلہ بولتا تو زیادہ بہتر ہوتا لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ اچھی سرخی کیسے بنے گی۔ سیاستدانوں کی ایسی حرکت پر تو بڑے آرام سے جگت مارنے کی پھبتی کس دی جاتی ہے لیکن ججوں کے بارے میں تو ایسی بات نہیں کہی جاسکتی۔ لیکن کب تک… جو صورت حال جوڈیشل کونسل میں پیدا ہوئی ہے اسے عدلیہ ہی کو ٹھیک کرنا ہوگا خواہ اس کے لیے کسی بڑے کو اپنے منصب کی قربانی ہی دینی پڑے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اس سے بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔ قوم وہ منظر دیکھنا چاہتی ہے کہ عدلیہ عدل کرے اور عدل ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ ریمارکس سے خرابیوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔