عزت مآب چیف جسٹس آف اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران فرمایا کہ جعل سازی سے خریدی گئی جائداد کے خریدار کو حق ملکیت کیسے دیا جاسکتا ہے یہاں یہ سوال ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ جب یہ عمل قانونی طور پر درست نہیں تو پھر ایسے مقدمات کا انداج کیوں کیا جاتا ہے اور اگر غلطی سے اندراج ہو بھی جائے تو ان کی سماعت کیوں کی جاتی ہے چیف صاحب کے ریماکس پہ ہمیں بہاولپور کے سیشن کورٹ کا ایک فیصلہ یاد آرہا ہے ایک شخص نے اپنے محلے کی بیوہ کو اپنی ماں بنایا اور اس کی مدد کرنے لگا کیونکہ وہ شخص کاشت کار تھا اس لیے جب بھی آتا کوئی نہ کوئی سبزی ضرور لاتا اس کے رویے سے بیوہ عورت بہت متاثر ہوئی اور اس پر بھروسا کرنے لگی جب کاشت کار بیوہ کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اس نے کہا ماں جی، آپ کے تین مکان ہیں میر ے پاس کوئی مکان نہیں کرائے کے مکان میں رہتا ہوں اور در بدر کی ٹھوکریں کھاتا رہتا ہوں میری خواہش ہے کہ میرا بھی مکان ہو میرے بچوں کا اپناگھر ہو بیوہ کو اس کی دکھ بھری کہانی سن کر بہت دکھ ہوا اس نے کہا کہ میں کیا کر سکتی ہوں ماں جی آپ بہت کچھ کر سکتی ہیں آپ نے جو مکان مجھے کرائے پر دیا ہوا ہے وہ آپ کے شوہر کا ہے اور جن دو مکانوں میں آپ رہائش پزیر ہیں وہ آپ کے سوتیلے بیٹے کے ہیں اور وہ کراچی میں رہتا ہے اس کے مرنے کے بعد ایک مکان آپ کے بیٹوں کو اور ایک مکان آپ کی بیٹیوں کو ملے گا اس طرح آپ کا ایک بیٹا میری طرح کرائے کے مکان میں رہے گا اگر آپ اپنا مکان مجھے دے دیں اور بڑے بیٹے کے مکان پر مقدمہ دائر کر دیں تو وہ مکان فروخت نہیں کر سکے گا اس کے مرنے کے بعد مکانات آپ کو مل جائیں گے قصہ مختصر اس نے ورغلا کر بیوہ کو مکان اپنے نام پر کرنے پر آمادہ کر لیا مکان کا اسٹام اس کے نام پر ہوا تو بیوہ نے اپنے بڑے بیٹے کے مکانوں پر مقدمہ دائر کر دیا کاشت کار نے بیوہ سے خریدے ہوئے مکان کی منتقلی کے لیے مقدمہ دائر کر دیا سماعت کے دوران اس نے بیوہ کے بیٹوں کو ڈرایا دھماکایا کہ اگر میرے حق میں گواہی نہ دی تو تمہاری والدہ فراڈ کے الزام میں جیل چلی جائے گی اور بیوہ کے بیٹوں نے اس کے حق میں گواہی دے دی۔
سول کورٹ کے جج صاحب نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ مکان کی خریداری 1998ء میں ہوئی ہے اور وراثتی انتقال 2004ء میں ہوا ہے گویا جب مکان خریدا گیا تھا اس وقت مکان بیوہ اور اس کے بیٹوں کے نام پر نہیں تھا وہ مکان فروخت نہیں کر سکتے تھے اور ڈگری مدعی کے خلاف جاری کر دی اس نے سیشن کورٹ میں اپیل دائر کر دی یہاں بھی مقدمہ کئی سال تک زیر سماعت رہا اور پھر سیشن کورٹ کے جج نے فیصلہ دیا کہ بیوہ اور اس کے دو بیٹوں نے مدعی کے حق میںگواہی دی ہے اور یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ مکان فرخت کر چکے ہیں اگر مدعی کے حق میں ڈگری جاری کر دی جائے تو انہیں کوئی اعترا ض نہیں ہوگا بادی النظر میں یہ فیصلہ درست ہی لگتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ سیشن کورٹ کے جج صاحب نے فساد کی آبیاری کی ہے کیونکہ جب مکان فروخت کیا گیا تو والد کے نام پر تھا اس لیے بیوہ اور اس کے بیٹے مکان فروخت کرنے کا حق نہیں رکھتے تھے کیونکہ وراثتی انتقال تو چھے سال بعد 2004ء میں ہوا تھا انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ جج صاحب مدعی کو اس کے پیسے دلانے کا حکم جاری فرماتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ وہ جسمانی طور پر بہت کمزور تھے سماعت کے دوران شدید بیمار تھے اور یہی بیماری ان کی موت کا سبب بنی۔
تحریک انصاف کے چودھری فواد کہتے ہیں کہ چودھری شجاعت بہت بیمار ہیں بیماری نے ان کے قوت فیصلہ کو بہت کمزور کر دیا ہے اس لیے ان کے خط کا قانونی جواز ہے نہ کوئی اخلاقی جواز، ق لیگ کے قائد چودھری شجاعت حسین نے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کو خط لکھا تھا کہ مسلم لیگ ق کے ارکان تحریک انصاف کے امیدوار کو ووٹ دیں تو انہیں منسوخ کر دیا جائے اس تناظر میں سیشن کورٹ کے جج صاحب کا فیصلہ قانونی طور پر درست نہیں یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مکان کو جوحصہ مدعی کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اس پر عمل درآمد کرانے پر کئی سال درکار ہیں کیونکہ مکان کی تقسیم کے لیے محکمہ مال سے رجوع کرنا پڑے گا گویا یہ سلسلہ تو نسل در نسل چلتا رہے گا یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ جج صاحب کے غلط فیصلوں کا احتساب کو ن کرے گا ان کے صواب دیدی اختیارات اور قانون سے بالا تر فیصلوں کے خلاف اپیل کون سنے گا اور اپیل کہاں دائر کی جائے گی۔