جمہورت کا حسن پاکستان میں گالی؟

678

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ پاکستان میں حکومت کے لیے اپنے حصص کسی دوسری حکومت کو فروخت کرنے کا کوئی قانونی راستہ نہیں، امید ہے اس حوالے سے قانون سازی یا آرڈیننس لے آئیں گے۔ اس پر ماہر ِمعاشیات ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ: پاکستان میں معیشت کی تباہی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہے۔ گزشتہ تین ماہ سے یہی تماشا چل رہا ہے۔ پنجاب کا سیاسی عدم استحکام ہماری معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ساری دنیا میں سرکاری اداروں کو نجی شعبوں کو فروخت کیے جاتے ہیں لیکن پاکستان اپنے سرکاری ادارے دوسرے ملکوں کے حوالے کر رہا ہے۔ ’اطلاعات ہیں کہ حکومت پاکستان اسٹیٹ آئل کی بھی نجکاری کرنے کا فیصلہ کر رہی ہے، لیکن وہ جن شرائط پر کرنے جا رہی ہے وہ پاکستان کے حق میں زیادہ بہتر دکھائی نہیں دیتے۔ یہ ایک ایسی جھیل ہے جس سے پاکستان کی تباہی کی بدبو آرہی ہے اس سے ملکی معیشت میں استحکام کے بجائے تباہی کا خدشہ ہے‘۔ پاکستانی معیشت ڈوبتی جا رہی ہے اور روپیہ اسٹیٹ بینک کی راہ تکتے تکتے تیزی سے بے جان ہوتا جا رہا ہے، لیکن ٹی وی چینل صبح کھولیں تو حمزہ شہباز پنجاب کی وزارت علیا کا حلف لیتے نظر آئیں گے۔ شام کو کھولیں تو تحریک انصاف عدالت پہنچ کر حمزہ کا اقتدار تمام کرچکی ہوتی ہے۔ پنجاب کا سیاسی عدم استحکام ہماری معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں دبے یا پھر کھلے الفاظ میں موجودہ صورت حال کا ذمے دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے ہوئے غیرجانبداری ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
عمران خان کی حکومت عدم اعتماد کے ذریعے رخصت ہوئی۔ پی ٹی آئی نے پہلے الزام امریکی سازش اور اسٹیبلشمنٹ پر لگایا تو سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے اسے یہ کہہ کر جمہوریت کی فتح قرار دیا کہ اب اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر نیوٹرل ہو چکی ہے۔ لیکن حکومت کا یہ موقف صرف دو ماہ ہی قائم رہ سکا۔ خصوصاً پنجاب میں ضمنی انتخابات میں بری شکست کے بعد سے کئی سینئر وزرا یہ سرگوشیاں کر رہے ہیں کہ ہمیں طوفان میں دھکا دے کر اگر اسٹیبلشمنٹ کو پیچھے ہٹنا تھا تو عمران خان کو کیوں نکالا؟ اسٹیبلشمنٹ سے ان کا مطالبہ بڑا سیدھا سا ہے کہ موجودہ حالات میں عمران خان اور ان کی جماعت سیاسی عدم استحکام کی بڑی وجہ ہیں تو پھر کیوں ان کو سبق نہیں سکھایا جا رہا؟ اس ساری صورت حال میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت عمران خان حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں بظاہر پیدا ہونے والی دوری سے فائدہ اٹھاتی۔ لیکن حکومت فری ہینڈ کے چکر میں پنجاب حکومت گنوا کر اپنا ہاتھ بھی توڑ چکی ہے۔ اب ان حالات میں جب اپوزیشن اور حکومت دونوں اسٹیبلشمنٹ ہی کو مورد الزام ٹھیرا رہے ہوں تو مقتدر حلقے کریں تو کریں کیا؟ کسی ایک پلڑے میں وزن ڈالنے سے تو وہ بار ہا انکار کرچکے ہیں۔ لیکن بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام اور معیشت کو ڈوبتا دیکھتے ہوئے ان کے خاموش رہنے کا آپشن بظاہر ختم ہونے جا رہا ہے۔ لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے اسلام آباد کا ابر آلود موسم گرج چمک کے ساتھ بھرپور بارش کے اشارے دے رہا ہے۔ جس کے بعد ’وسیع تر قومی مفاد‘ میں ’معاشی ایمرجنسی‘ لگانے کے لیے نرم ہو یا سخت مداخلت ناگزیر سمجھی جائے گی۔
موجودہ سیاسی بحران کا واحد حل انتخابات ہی ہیں لیکن الیکشن کے رواں سال ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اس کی بڑی وجہ ملک کے معاشی حالات ہیں۔ کیا انتخابات ہوئے بغیر سیاسی عدم استحکام ختم ہو سکتا ہے؟ بالکل نہیں۔ تو جب انتخابات نہیں ہو سکتے اور سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ بھی لازمی ہے تو پھر کیا کیا جائے؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب اسلام آباد کے ایوانوں میں ڈھونڈا جا رہا ہے۔ اس وقت شہباز شریف کے لیے معیشت کو سنبھالنا ضروری ہے یہی ان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ لیکن یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ پنجاب کے معاملات انہیں پرفارم کرنے نہیں دے رہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ تحریک انصاف اور ق لیگ کی وزارت علیا کے بارے میں عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں حکومت کرنے دی جائے اور مرکز میں معیشت کی بحالی پر توجہ مرکوز رکھی جائے ورنہ ایسا نہ ہو کہ پنجاب بھی ہاتھ سے جائے اور آئندہ انتخابات میں ن لیگ اس الزام کے ساتھ جائے کہ آپ کی تجربہ کار ٹیم سے تو معیشت سنبھل نہیں پائی۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل 26 جولائی، 2022 کو مقامی تھنک ٹینک تبادلیب کو بتایا ہے کہ زرمبادلہ کی کمی کے شکار پاکستان کو بین الاقوامی قرضوں کی واپسی کے حوالے سے دیوالیہ ہونے کا خطرہ نہیں کیوں کہ انہیں امید ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں ملک میں ڈالرز کی ترسیل میں اضافہ ہو گا۔ مفتاح اسماعیل کا یہ بیان پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان 1.17 ارب ڈالرز کی قسط کی ترسیل کے معاہدے پر پہنچنے کے ایک ہفتے سے زائد عرصے کے بعد سامنے آیا۔ عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اپنی معیشت کو سنبھالنے کے لیے مشکلات کا سامنا کر رہا ہے کیونکہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر محض 9.32 ارب ڈالرز رہ گئے ہیں جو 45 دنوں کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے بمشکل کافی ہیں جبکہ مقامی ڈالر کے مقابلے میں ریکارڈ کم ترین سطح تک گر چکی ہے۔ پاکستانی کرنسی منگل کو امریکی ڈالر کے مقابلے میں 232.93 روپے کی کم ترین سطح پر گر گئی تھی کیونکہ درآمدی ادائیگیوں کی مانگ سے روپے پر دباؤ زیادہ ہے اور اب بھی اس کی صورتحال بہتر نہیں ہے۔ لیکن وہ بات سارے فسانے میںجس کا ذکر نہ تھا کے مصداق عوام کی بد حالی پر کسی کی بھی توجہ نہیں ہے۔ 25جولائی 2022ء کو جب سندھ اور بلوچستان میں مون سون کی بارشوں نے سیلاب کی صورتحال پیدا کر دی اور حب کے مقام پر پُل ٹوٹنے کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان ایک دوسرے سے منقطع ہو گئے اور دونوں اطراف ہزاروں افراد ڈوب رہے تھے تو اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والے اجلاسوں میں عدالت عظمیٰ پر تبرہ پڑھنے کے لیے طویل سوچ بچار جاری تھی۔ اس کے ساتھ ہی سندھ حکومت کے سرپرست اور پنجاب میں اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کرنے والے سیکولرز ازم اور جمہوریت کے بادشاہ عوام کو ڈوبتا چھوڑ کر دبئی روآنہ ہوگئے اور ان کے حامی یہی کہتے رہے کہ ایک زرداری سب پر بھاری لیکن اب عدالت نے اپنی ضربِ کاری سے ہر بھاری کو ہلکا کر دیا ہے لیکن جمہورت کا حسن نجانے کیوں پاکستان کے لیے گندی گالی بنتا جارہا ہے؟