ڈالر کی پرواز معیشت کی تباہی

530

پاکستانی معیشت عملا تباہ ہو گئی ہے ڈالر کی اڑان جاری ہے یہی ڈالر جو کبھی 62 روپے پر رکا ہوا تھا اب 233 روپے پر پہنچ گیا ہے اور لگتا ہے کہ فری فلوٹنگ کی پالیسی ڈالر کو ڈھائی سو سے بھی اوپر لے جائے گی۔ سونے کی قیمت بھی اس کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ اور گورنر اسٹیٹ بینک فرما رہے ہیں کہ تسلی رکھیں ابھی کچھ نہیں بگڑا۔ بیک وقت دو باتیں درست نہیں ہو سکتیں۔ تمام تاجر تنظیمیں درآمد اور برآمد کنندگان سمیت تمام ہی تاجر سرمایہ کار پریشان ہیں کہ ڈالر کسی طرح کنٹرول نہیں ہو رہا۔ وہ کسی قسم کے سودے نہیں کر سکتے۔ آج ایک سودا طے کیا اور صبح ڈالر اوپر چلا گیا۔ پیداواری لاگت بڑھ گئی۔ ہر برآمد کنندہ کے پاس خام مال کے ڈھیر نہیں ہوتے بلکہ وہ بھی مارکیٹ سے مال خریدتے ہیں۔ اور جو لوگ برآمدیا درآمد کا کام کرتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سودے ایک ایک اور آدھے آدھے ڈالر پر ہوتے ہیں۔ برآمد کنندگان ریبٹ کے آسرے پر برابر برابر کا سودا تک کر لیتے ہیں تا کہ ان کا کام چلتا رہے۔ ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر سید مرتضٰی نے کہا ہے کہ ابھی ایسی صورت حال نہیں پیدا ہوئی کہ سونا رہن رکھوانا پڑے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 9.3 ارب ڈالر اور سونے کی قدر 3.8 ارب ڈالر ذخائر کے علاوہ ہے۔ انہوں نے روپے کی قدر میں کمی کی وجہ بیان کی ہے کہ اسکا سبب امریکی ڈالر کی قدر میں بین الاقوامی سطح پر اضافہ ہے اور ڈالر کی طلب و رسد کا فرق ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ درآمدات میں کمی آئے گی اور طلب و رسد کا فرق بتدریج کم ہوتا چلا جائے گا۔ یہ تو ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کا موقف ہے لیکن کیا وہ صرف رواں تبصرہ کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ حکومت پاکستان گورنر اسٹیٹ بینک اور ڈائریکٹرز کا تقرر کیوں نہیں کر رہی۔ تا کہ اسٹیٹ بینک کوئی فیصلے کر سکے۔ ڈپٹی گورنر صاحب صرف تبصرہ کر کے بیٹھ نہ جائیں حکومت کو مجبور کیا جائے کہ درآمدی بل کم سے کم کیا جائے۔ اور غیر ملکی اشیاء غیر ضروری طور پر درآمد کرنے والے بھی سوچیں کہ اپنے معمولی منافع کی خاطر وہ ملک کی معیشت کا بھٹہ بٹھانے والا کام کر رہے ہیں۔ درآمد برآمد میں توازن پیدا کرنا اور ڈالر کی طلب و رسد کو کنٹرول کرنے کے اقدامات کس کی ذمے داری ہیں۔ اسٹیٹ بینک کو دیگر بنکوں کے معاملات تو دیکھنے چاہئیں جو یہ بھی نہیں دیکھ پارہا کہ جو شرح اسٹیٹ بنک ڈالر کی بتا رہا ہے وہ مارکیٹ میں کیوں قائم نہیںرہتی۔ ملک بھر کے تاجر اور ان کی تنظمیں پریشان ہیں اور اپنی پریشانی کا اظہار بھی کر رہی ہیں۔ لاہور چیمبر نے شکوہ کیا ہے کہ بینکس ڈالر کے دس تا 20 روپے اضافی وصول کر رہے ہیں اور اسٹیٹ بینک مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے جب کہ اسے اس صورت حال کو کنٹرول کرنا چاہیے تھا۔ یہ محض عام قسم کی شکایت نہیں ہے بلکہ بنکوں کے زاید وصولی سے زیادہ خطرناک اور تشویشناک بات اسٹیٹ بینک کی خاموشی ہے۔ ایک تو ڈالر کی شرح تبادلہ ایک دن بھی مستحکم نہیں رہتی اس پر بنکس تاجروں کی ایل سی کھولنے میں بھی رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔ بات صرف لاہور چیمبر کی نہیں ہے بلکہ وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت کے قائم مقام صدر سلیمان چائولہ نے بھی کہا ہے کہ ڈالر کنٹرول کیے بغیر پیٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں میں کمی ممکن نہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت 15 دن کے لیے تو ڈالر کی شرح معین کرے تا کہ برآمد و درآمد کنندگان کوئی سودا کر سکیں۔ سلیمان چائولہ نے بہت واضح طور پر کہا ہے کہ ملک فری فلوٹنگ ایکسچینج ریٹ کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس وقت زرمبادلہ کی مارکیٹ میں جو اٹھا پٹک ہو رہی ہے اس کی روشنی میں اسٹیٹ بینک کے گورنر کا تقرر اور ڈائریکٹرز کے تقرر کے بعد بورڈ کی تکمیل زیادہ ضروری تھی لیکن حکومت یہ کام کرنے میں بھی ناکام ہے۔ حکومت خود پنجاب کے معاملات میں الجھی ہوئی ہے۔ یہ کہنا درست ہے کہ سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں معیشت پر برا اثر پڑتا ہے لیکن ایسا تب ہی ہوتا ہے جب معاشی اشاریوں کو کنٹرول کرنے والی حکومت اور سرکاری بنک سو رہے ہوں یا اس اکھاڑ پچھاڑ کا خود بھی حصہ بنے ہوئے ہوں۔ اس کا الزام صرف موجودہ حکمرانوں پر نہیں لگایا جا سکتا بلکہ یہ ایک تسلسل ہے جو مسلم لیگ ، پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی جرنیلوں اور اب پی ڈی ایم کی صورت میں ملک پر مسلط ہے۔ ان تمام نے یہ ثابت کیا ہے کہ ان سے ملک نہیں سنبھالا جارہا ہے۔ پاکستانی تاجروں برآمد و درآمد کنندگان کی شکایت تو کوئی نہیں سنتا لیکن امریکا پاکستان بزنس ڈیویلپمنٹ فورم کی تو کوئی اہمیت ہو گی وہ چونکہ پاکستانی حکمرانوں کے کسی قسم کے دبائو سے آزاد ہیں اس لیے انہوں نے کھل کر کہا ہے کہ موجودہ اور سابق تمام حکمرانوں نے ملکی معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔ فورم کے صدر نے بنیادی مسئلے کی نشاندہی کر دی ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرتے کرتے معیشت مکمل بیٹھ گئی ہے۔ انہوں نے سیاسی عدم استحکام کے بارے میں بھی کہا ہے کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے ایسے افراد کو منتخب کیا جائے جو معیشت کو بہتر بنا سکیں۔ فورم نے اس امر پر بھی تشویش ظاہر کی ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور ملک میں مہنگائی کا طوفان ہے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ملک کو معاشی تباہی اور بحران سے نکالنے کے ذمے دار موجودہ اور سابق تمام حکمران ہیں اور ملک میں جو بھونچال سیاسی سطح پر ہے وہ سب مصنوعی ہے۔ ہر گروہ خود کو آئی ایم ایف کا زیادہ بڑا خادم ثابت کرنے میں مصروف ہے۔ صرف سابق وزیرخزانہ اسد عمر کا 12 دسمبر 2018ء کا بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں انٹرویو اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے جس میں انہوں نے اپنی خدمات گنوائی تھیں۔ اسد عمر نے اس انٹرویو میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت نے بیل آئوٹ پیکج کے لیے آئی ایم ایف میں جانے سے پہلے ہی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کر دی تھی۔ اور بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا تھا۔ انہوں نے مزید خدمات گنواتے ہوئے بتایا تھا کہ ہم نے آئی ایم ایف کی جانب سے کوئی شرط عاید کرنے کا انتظار نہیں کیا بلکہ پہلے 100 دنوں ہی میںقیمتیں بڑھا دیں۔ ضمنی بجٹ پیش کیا۔ ٹیکسوں میں اضافہ کیا۔ اسٹیٹ بینک نے کرنسی کو ایڈجسٹ کیا۔ یہ وہی فیصلہ ہے جس میں اسٹیٹ بنک نے ڈالر کو ایک جھٹکے میں 109 سے 170 پر پہنچایا تھا اور آج وہ 38 روپے 6 ماہ میں بڑھنے پر اعتراض کر رہے ہیں۔ اسٹیٹ بنک کا گورنر کیوں مقرر نہیں ہو رہا اور بورڈ کیوں مکمل نہیں ہو رہا اس کی حقیقت بھی 2018/19 کی ہے جب پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا تھا کہ ہم اسٹیٹ بنک کو حکومت پاکستان کے قانون سے آزاد کر دیں گے اور اس حکومت نے اسٹیٹ بنک کو باقاعدہ قانون سازی کر کے آئی ایم ایف کا عملاً غلام بنا دیا۔ اب کس سے منصفی چاہیں کسے وکیل کریں والی بات ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں پی ٹی آئی پر اور پی ٹی آئی ان دونوں پر الزامات کا کھیل کھیل رہے ہیں نتیجہ صرف یہ ہے کہ ملک کا بیڑا غرق ہو رہا ہے۔ کیا یہ سب باتیں جماعت اسلامی نے کہی ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے یا کسی مولوی نے کہی ہیں۔ یہ سارے شکوے تاجروں اور اہم تنظیموں کے ہیں جو یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ آئی ایم ایف کی غلامی ملک کو عملاً غلام بنا رہی ہے۔