تباہی کی ذمے دار صرف بارش نہیں

504

ملک بھر میں تیز طوفانی اور مسلسل بارش نے تباہی مچادی ہے۔ آسمان سے جب پانی برستا ہے تو اللہ کی پناہ مانگی جاتی ہے کہ نہ جانے اس بادل میں رحمت ہے یا عذاب، لیکن پاکستان میں حکمران اور عوام دونوں ہی اس جانب سے بری طرح غافل ہیں اور حکمران اپنے ان فرائض سے بھی غافل ہیں جو ان پر حکمران ہونے کے ناتے عائد ہوتے ہیں۔ گزشتہ کئی روز سے بارش کی جھڑی لگی ہوئی ہے، اس جدید دور میں یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ پتا نہیں تھا اتنی تیز اور اتنی زیادہ بارش ہوگی۔ بلکہ حکمرانوں کو تو اچھی طرح پتا تھا کہ کتنی بارش ہوگی اور اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمن نے تو پندرہ روز قبل کہہ دیا تھا کہ اربن فلڈنگ سے شہری علاقوں کے ڈوب جانے کا خطرہ ہے۔ شیری رحمن بھی پیپلز پارٹی کی رہنما ہیں اور سندھ میں حکومت بھی اسی پارٹی کی ہے۔ چند روز قبل طوفانی بارش میں ایک موٹر سائیکل شادمان ٹائون کے نالے میں گر گئی جس سے عورت اور اس کا شیرخوار بیٹا جاں بحق ہوگئے اور موٹر سائیکل سوار اور اس کی بچی بچ گئے، لیکن بارش کی تباہ کاریوں سے واقفیت کے باوجود حکومت سندھ نے کوئی حفاظتی اقدام نہیں کیا۔ اگر نالا واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا تھا تو اس کا کنٹرول بھی حکومت سندھ کے پاس ہے اور اگر کے ڈی اے کا ہے تو بھی اس کا کنٹرول حکومت سندھ کے ہاتھ میں ہے۔ حکومت سندھ کراچی کے درجن بھر بلدیاتی اداروں کا کنٹرول اپنے قبضے میں لے چکی ہے۔ ان تمام اداروں کے ذریعے بلدیاتی مسائل بھی حل کیے جاتے ہیں اور مسائل پیدا ہی نہیں ہونے دیے جاتے۔ شیری رحمن صاحبہ نے رننگ کمنٹری کرتے ہوئے یہ تو بتادیا کہ اربن فلڈنگ کا خدشہ ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس اربن فلڈنگ کی ذمے دار صرف بارش ہے یا حکومت سندھ جس کا 14 سال سے سندھ پر اقتدار چل رہا ہے لیکن کہیں سے بھی اچھی خبر نہیں ہے۔ کراچی ہو یا حیدر آباد سب ایک ہیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ کراچی اور حیدر آباد والوں سے پیپلز پارٹی کی کوئی دشمنی ہے جسے وہ نکال رہی ہے، لیکن بات دشمنی سے بھی زیادہ ہے۔ جب بلدیاتی اداروں کے ذمے داران پیسے دے کر منصب خریدیں گے تو وہ اپنے پیسے وصول بھی کریں گے۔ وہ اسی میں مصروف رہتے ہیں اور لوگوں کی زندگی عذاب میں رہتی ہے۔ شادمان نالا ہو یا جوہر والا نالا یا لیاری ندی، سبزی منڈی کا نالا ہو یا شہر کے ہزاروں گٹر ہر وقت عوام کے لیے موت کے کنویں بنے رہتے ہیں۔ ندیوں اور نالوں کے قریب آبادی اور 80 گز پر چھ چھ منزلہ عمارتیں کس کی اجازت سے بنتی ہیں، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کس کے کنٹرول میں ہے، واٹر بورڈ کا چیئرمین اور وائس چیئرمین کون ہے، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی کس کی ہے۔ یہ سارے کُھرے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی طرف جارہے ہیں اور یہ سندھ حکومت صرف کراچی یا حیدر آباد اور سکھر کی حد تک نااہل اور نالائق نہیں ہے بلکہ پورا سندھ انہوں نے غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ بھٹو کی پارٹی بھٹو کے نام لیوا اگر بھٹو کے لاڑکانہ کو نہیں بچا سکے تو وہ کسی اور شہر کو کیا بچائیں گے، وہاں تو گاڑیاں بھی ڈوبی ہوئی تھیں اور گھروں میں پانی تھا، پورے سندھ میں جیکب آباد، بدین، ڈگری، مٹیاری، جھڈو، دادو، سانگھڑ وغیرہ میں یہی حال ہے، دیواریں اور چھتیں گر رہی ہیں۔ کراچی، حیدر آباد، سکھر وغیرہ میں تو ٹی وی چینل والے دوڑ پڑتے ہیں، ان دیہات اور چھوٹے شہروں کی تو کوئی آواز نہیں۔ یہ جو رننگ کمنٹری کی گئی تھی اس پر تو کمنٹری کرنے والوں اور ذمے داروں سب کو سزا ہونی چاہیے۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے زبردست بات کہی کہ لوگ بارش کو پکنک نہ سمجھیں گھروں میں رہیں۔ بہت خوب مرکزی رہنما کمنٹری کررہی ہیں اور صوبائی وزیراعلیٰ لوگوں کو گھروں میں رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بارش کی وجہ سے احتیاط ضروری ہے لیکن وہ تو اس لیے کہہ رہے ہیں کہ لوگ ان کی نااہلی کا تماشا خود نہ دیکھیں، اخبارات تو جھوٹ ہی لکھتے ہیں، یہ بڑا آسان کام ہے کہ گھروں میں رہیں باہر ڈاکے پڑ رہے ہیں۔ کے الیکٹرک کہتی ہے کہ گھروں میں رہیں، بجلی کا جھٹکا لگ جائے گا، حکومت کے لیے عوام پر پابندیاں لگانا بڑا آسان نسخہ ہے۔ وزیراعلیٰ صاحب اور تمام ہی حکمرانوں نے حکومت کو پکنک سمجھ رکھا ہے۔ مراد علی شاہ صاحب حکمرانی کو پکنک نہ سمجھیں، یہ حال صرف سندھ حکومت کا نہیں ہے، کے پی کے میں بھی پی ٹی آئی 9 سال پکنک منا کر گئی ہے۔ اس کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ بلوچستان ،کے پی کے میں کئی رابطہ پل بہہ گئے، یہ تھی ترقی… ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں، مویشی بہہ گئے اور انسان کی تو کوئی قیمت حکمرانوں کے نزدیک نہیں۔ ساری تباہی بارش کی نہیں زیادہ حصہ حکمرانوں اور ان کو لانے والوں کا ہے۔ ’’خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہوگیا جو انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے‘‘ (سورہ روم) ۔ یہ جو کچھ بھی ہے اس کا الزام صرف بارش پر نہیں دھرا جاسکتا۔ان کے بارے میں تو یہ کہنا درست ہے کہ ؎
وہ تعفن ہے کہ اس بار زمیں کے باسی
اپنے سجدوں سے گئے، رزق کمانے سے گئے