معاشی نہیں ایٹمی دیوالیہ کی سازش؟

1171

پاکستان کے لیے عالمی اخبارات یہ خبریں اور آرٹیکل چلانے میں مصروف ہیں کہ پاکستان کی معیشت تباہ ہو رہی ہے اور اس کو ٹھیک کرنے لیے پاکستان کو 100ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور دنیا کو پاکستان کی مدد کرنے لیے اس کو 100ارب ڈالر کا ایک پیکیج دینا ہوگا۔ اس کے علاوہ ایک ماہ قبل ہی سینیٹ کے سابق ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے سینیٹ کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پاکستان کی معیشت ٹھیک ہو سکتی ہے تو اس میں کیا برائی ہے، پاکستان کوفوری اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہیے۔ یہ اور اس جیسی بہت ساری خبریں عالمی اخبارات میں چل رہی ہیں لیکن حکومت کی ’’خاموش رہو‘‘ کی پالیسی نے پاکستان سے محبت کرنے والوں کی پریشانیوں اضافہ کر دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے وہ آئی ایم ایف جس نے پاکستان کی نئی حکومت سے کہا تھا کہ وہ ان کی شرائط پر عمل کر لیں تو وہ بہت جلد پاکستان کو ایک ارب ڈالر دے گا لیکن اب جبکہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر عمل کرتے ہوئے پاکستانی عوام پر مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کا عذاب نازل کر رکھا ہے آئی ایم ایف پاکستان کو قرض نہیں دے رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی وہ کون سی شرط ہے جس کو پاکستان سے پوری کروانے کی کوشش کر رہا ہے جس کے بعد وہ پاکستان کو 100ارب ڈالرسے زائد قرض دینے کی تیار ہو جائے گا۔
پاکستان میں اس وقت سیاسی عدم استحکام کی طرح معاشی دشواریوں کا بھی شکار دکھائی دیتا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر نو ارب 30 کروڑ ڈالر تک گر گئے ہیں اور پاکستان کے بانڈز بین الاقوامی مارکیٹ میں آدھی قیمت پر بیچے جا رہے ہیں۔ روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ دیکھی جا رہی ہے اور آئی ایم ایف کی جانب سے بھی حوصلہ افزا بیانات سامنے نہیں آ رہے۔ ان حالات کے پیش نظر خبریں گردش کر رہی ہیں کہ حکومت پاکستان کچھ اداروں اور منصوبوں کو دوست ممالک کو بیچنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس بارے میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے حالیہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ حکومت دو پاور پلانٹس اور کچھ اداروں کے شیئرز عرب ممالک کو بیچنے کا ارادہ رکھتی ہے جس سے تقریباً اڑھائی ارب ڈالرز معیشت میں شامل ہو سکیں گے اور روپے کی گرتی ہوئی قدر کو سہارا مل سکے گا۔ لیکن یہ عرب ممالک کون سے ہیں اور وہ پاکستان کو دو ارب کے عوض دو پاور پلانٹس کو ہڑپ کرنا چاہتے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق یہ عرب ملک متحدہ عرب امارات ہے جس کے اسرائیل سے تجارتی کم عسکری تعلقات زیادہ ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملکی منصوبے اور اثاثے بیچ کر پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے؟
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سیاست دان ذہنی طور پر تیار ہو گئے ہیں کہ پاکستان آج نہیں تو کل دیوالیہ ہو جائے گا، شاید اسی لیے وہ مثبت اقدامات کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔ کسی بھی ملک میں اداروں کو بیچنا مسئلے کا حل نہیں ہوتا ہے۔ اگر موجودہ نجکاری سے اڑھائی ارب ڈالرز مل بھی جائیں تو وہ کتنی دیر کارآمد ثابت ہوں گے؟ ابھی چین سے جو اڑھائی ارب ڈالرز ملے تھے انہیں ایک ماہ سے کم عرصہ ہی میں خرچ کر لیا گیا ہے۔ نجکاری کرنے سے وقتی طور پر فائدہ ہو سکتا ہے لیکن وہ چند دنوں سے زیادہ نہیں ہوگا۔
’اس سے پہلے بھی ن لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حکومتیں ملکی اثاثے گروی رکھ کر بھاری قرض لیتی رہی ہیں، جن میں موٹر وے، کراچی، اسلام آباد ائرپورٹ، ریڈیو پاکستان کی عمارت اور اسلام آباد کے ایف نائن پارک کے علاوہ کئی ملکی اثاثے شامل ہیں۔ حکومت آج تک ان اثاثوں کے عوض قرض کی ادائیگی کر کے انہیں آزاد نہیں کروا سکی۔ اگر اسی طرز پر مزید قرضے لینے کی پالیسی قائم رہتی ہے تو ممکنہ طور پر پاکستان کے اثاثوں کی خریداری میں بھی ممالک دلچسپی نہیں لیں گے، کیونکہ آج پاکستان کے بانڈز آدھی قیمت پر بھی کوئی لینے کو تیار نہیں ہے۔
ملک کے معاشی مسائل اپنی جگہ لیکن ’یہ خدشات بھی بڑھنے لگے ہیں کہ دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے اگر ملکی ایٹمی اثاثوں پر سمجھوتا کرنے کی شرط رکھ دی جاتی ہے تو ہمارے حکمران کیا فیصلہ کریں گے؟ عوامی سطح پر بھی یہ سوال اٹھایا جانے لگا ہے کہ کیا پاکستان ایٹمی اثاثوں پر سمجھوتا کرنے کی طرف جا رہا ہے؟ اس وقت پالیسی بدلے جانے کی ضرورت ہے۔ اداروں کی نجکاری کے بجائے انہیں کامیابی سے چلانے کی حکمت ِ عملی تیار کرنا ہوگی۔ مفتاح اسماعیل چند دن پہلے دوبارہ فرما رہے تھے کہ جو اسٹیل مل خریدے گا اسے پی آئی اے مفت میں دیں گے، کیونکہ ان کے نقصانات ان کے اثاثوں سے زیادہ ہیں۔ وہ جب سابق نواز حکومت میں تھے تو اس وقت بھی انہوں نے کراچی چیمبر میں خطاب کے دوران یہی کہا تھا کہ ’’اسٹیل مل خریدے گا اسے پی آئی اے مفت میں دیں گے‘‘ باپ کا مال نہیں ہے کہ پاکستان کو مفت کا مال سمجھ کر اونے پونے فروخت کیا جارہا ہے۔
’اطلاعات ہیں کہ حکومت پاکستان اسٹیٹ آئل کی بھی نجکاری کرنے کا فیصلہ کر رہی ہے، لیکن وہ جن شرائط پر کرنے جا رہی ہے وہ پاکستان کے حق میں زیادہ بہتر دکھائی نہیں دیتے۔ ممکنہ طور پر عرب دوست ملک نے پی ایس او کے شیئرز اس شرط پر خریدنے کی حامی بھری ہے کہ اگر کل کو شیئرز بیچنے کا فیصلہ کیا تو حکومت پاکستان اسے واپس خریدے گی اور اس کی قیمت دوست عرب ملک طے کرے گا۔ یہ ایک طرح کا قرض ہوگا۔ موجودہ حالات میں زیادہ مناسب ہو گا کہ ادارے اور منصوبے بیچنے کے بجائے ملک میں سیاسی استحکام لایا جائے۔ چند ارب ڈالرز چند دنوں میں ختم ہو جائیں گے۔ اس کے بعد کیا کریں گے؟ اگر برآمدات بڑھتی رہیں، ٹیکس آمدن میں اضافہ ہوتا رہے اور درآمدات پر قابو پا لیا جائے تو ملکی اثاثے بیچنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
اس بات سے انکا ر نہیں ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے پورے عالم کفر کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے لیکن اس کو بچانے کے لیے اب جو کچھ ملک کے حکمران کر ر ہے ہیں اس سے تو یہی پتا چلتا ہے کہ پاکستان کو آئندہ چند ماہ میں بھاری نقصان پہنچانے لیے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو ’’گروی‘‘ رکھنے کی بات عالمی سطح پر زور وشور سے شروع ہو جائے گی۔ اس کے لیے ملک میں عالمی اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی صف بندی شروع کر دی ہے۔ آصف علی زرداری کو ملک میں ہیرو بنا کر صدر بنانے کی تیاری عروج پر ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے کسی ذمے دار ملک کے حوالے کیا جانا ضروری ہے اور یہ بھی اشاروں اشاروں میں صاف طور سے دیا گیا ہے کہ خطے میں سب زیادہ ذمے دار ملک اسرائیل ہے اس لیے پاکستان کے ایٹمی اثاثے اسرائیل کے حوالے کر کے معیشت کو بچایا جائے لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ طاقت کے بغیر معیشت اور ترقی کا تصور محال ہی نہیں بے کار ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ پاکستان مخالف معاشی نہیں ایٹمی دیوالیہ کی سازش میں مصروف ہیں؟