…۔20جولائی کو رات گئے

625

ایک جمہوری کہلانے والے ملک میں 20جولائی کو رات گئے جو کچھ ہوا وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس ملک کی اشرافیہ یا اسٹیبلشمنٹ ملک دشمنی کا سودا اپنے دماغوں میں سمائے بیٹھی ہے۔ کراچی کے ضمنی انتخابات اب سے دس روز بعد آنے والے محرم الحرام اور بارش کے خدشے کے پیش نظر ملتوی کر دیے گئے۔ عدالت عالیہ سندھ نے ایم کیو ایم کی جانب سے التوا کی درخواست مسترد کر دی۔ پیپلز پارٹی کو اس حوالے سے پہلے ہی منہ کی کھانی پڑی تھی لیکن اچانک مردم شماری پر خاموش الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں میں گڑبڑ کی شکایات اور سیاسی ریٹرننگ افسران کے تقرر کی شکایات کے باوجود جاگ اٹھا اور رات گئے بارش کے خطرے کے پیش نظر اور الیکشن کے ایک ہفتے بعد شروع ہونے والے محرم کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات ملتوی کر دیے۔ انتخابات کا شیڈول جب تیار کیا گیا تھا اس وقت بھی سب کو معلوم تھا کہ مون سون کب سے کب تک ہوتا ہے اور تاریخ مقرر کرنے والوں کو یہ بھی معلوم تھا کہ محرم الحرام میں کتنے دن باقی ہوں گے۔ جو جواز دیا گیا ہے وہ یہ بھی ہے کہ عوام کی سہولت کے لیے فیصلہ کیا گیا ہے۔ اور عوام یہی کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا والی کیفیت میں ہیں۔ انتخابات جیسے اہم معاملے کو محض بارش کے خدشے کے پیش نظر ملتوی کرنا تو بعید از عقل تھا ہی لیکن اسے عوام کے تحفظ اور سہولت کا لبادہ اوڑھانے کی بے ہودہ کوشش کیوں کی گئی۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کو مردم شماری میں دھاندلی پر جو تکلیف ہوئی، ان کے حلقوں میں ردو بدل سے جو تکلیف ہوئی اور سیاسی پولنگ افسران کے تقرر سے جو تکلیف ہونے والی تھی اس کے بارے میں ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔
الیکشن کمیشن کے آزادانہ ہونے کا تو 20جولائی کو رات گئے فیصلہ ہو ہی گیا لیکن جمہوریت کی بڑی دعویدار پیپلز پارٹی کو کیا ہوا کہ اس نے الیکشن سے فرار حاصل کر لیا۔ ان کے چیف سیکرٹری نے کیوں درخواست دی۔ ایسے چیف سیکرٹری کو منصب پر بر قرار رکھنے کا کوئی جواز ہے جو 24 جولائی کی تاریخ کے اعلان کے بعد سے 20 جولائی تک خواب خرگوش میں تھے اور 20 جولائی کی رات اچانک آنکھ کھلی تو خیال آیا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی سہولت کے لیے کچھ کیا جائے، چنانچہ انتخابات ملتوی کردیے، شاید سکندر سلطان راجا کے نزدیک پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ہی عوام ہیں۔ الیکشن کمیشن کے خیال میں تیز بارش آنے والی ہے۔ ان کا خیال بالکل درست ہے۔ یہ تیز بارش موسم برسات کی نہیں تھی کوئی اور بارش آنے والی تھی۔ ایم کیو ایم کو اپنی شکست سے زیادہ کراچی کی تباہی کا دور ختم ہونے کا خدشہ تھا۔ پیپلز پارٹی نے کراچی کے وسائل پر جو قبضہ جمایا ہوا ہے اسے وہ قبضہ ختم ہوتا نظر آ رہا تھا۔ ایم کیو ایم اپنی جوڑ توڑ اور ’’بزرگوں‘‘ کی مدد سے پھر کوئی راستہ نکالنے میں ناکام ہو رہی تھی اس لیے ان سب کو عافیت اسی میں نظر آئی کہ الیکشن سے فرار اختیار کیا جائے اس کام میں الیکشن کمیشن نے سہولت کاری کا فریضہ انجام دیا۔ وہ بارش کون سی تھی۔ یہ مون سون نہیں تھا۔ یہ جماعت اسلامی اور حافظ نعیم کا سونامی تھا۔ انہیں پتا تھا کہ شہر کی فضا ایسی ہو گئی ہے کہ ہر پارٹی کا ووٹر بلدیات میں ترازو کو ووٹ دینے کا فیصلہ اور اعلان کر رہا تھا۔ 24 جولائی کو بہت تیز بارش ہونے والی تھی ہر پولنگ اسٹیشن پر ترازو کے ووٹوں کی بارش۔ اس سے بچنے کے لیے الیکشن کمیشن کے تعاون سے جو سہولت کاری کی گئی ہے الیکشن سے فرار کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ الیکشن کمیشن سے انصاف مانگتے ہیں اپنے مسائل کا حل مانگتے ہیں۔ پاکستان میں لوگ الیکشن کمیشن کے سیاسی فیصلوں پر دھرنا دیتے ہیں اس کے دفاتر پر احتجاج کرتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے پورے کراچی کی بالاتفاق ایک ہی آواز تھی کہ کراچی کو بچانا ہے تو ترازو کو لانا ہے۔ ہر شخص کو جماعت اسلامی کی ماضی کی کارکردگی اور حالیہ جارحانہ جدو جہد کی روشنی میں یقین ہو چلا تھا کہ ترازو اس کا بازو ہے۔ لیکن کراچی کے دشمنوں نے کراچی کو محروم کرنے کی سازش کی ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ جماعت اسلامی ایسے ہتھکنڈوں سے رکنے والی نہیں بلکہ کراچی کے حقوق کی جدو جہد اب مزید تیز ہو جائے گی۔ کئی قوتوں کو روڑے اٹکانے کے لیے لگا دیا گیا ہے لیکن انہیں بھی اپنی حیثیت کا اندازہ ہے۔ اب کراچی کی بقا کا مسئلہ ہے۔ شہر کو دوبارہ اٹھانے کا مسئلہ ہے۔ ایسے میں الیکشن سے بھاگنے والے بھاگ بھاگ کر تھک جائیں گے۔ روڑے اٹکانے والے رکاوٹیں ڈال ڈال کر تھک جائیں گے لیکن حافظ نعیم کی قیادت میں جماعت اسلامی کی ٹیم تھکنے والی نہیں۔ اس کا تو عزم ہی یہی ہے کہ اپنے راستے کی ہر رکاوٹ دور کریں گے بلکہ کراچی کی ہر سڑک، ہر گلی سے رکاوٹیں اور گڑھے دور کریں گے کیونکہ ان سب کا عزم ہے کہ
خون دل دے کر نکھاریں گے رُخِ برگِ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
ایسی قسم کھانے والوں اور ایسے پر عزم پہاڑوں کا راستہ نہیں روکا جا سکتا ہر آنے والا دن ان کو مزید تقویت دے گا الیکشن سے بھاگنے والے اب بھاگتے ہی رہیںگے۔