لاوارث کراچی کو وارث کی تلاش

493

اے ابن آدم کراچی کا شمار دنیا کے ان عظیم ترین شہروں میں ہوتا ہے جس نے صنعتی و تجارتی میدان میں انتہائی کم وقت میں لازوال ترقی کی اس شہر نے پاکستان کی معیشت کا 70 فی صد بوجھ اُٹھایا ہوا ہے، کبھی ماضی میں اس شہر کو ملکہ مشرق اور کبھی دنیا کا چھٹا بڑا شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہوچکا ہے مگر افسوس وہ سب قصہ ماضی بن چکے، اس شہر پر راج کرنے والی ایم کیو ایم نے بھی کراچی کو وہ مقام نہیں دلوایا جو اس شہر کا حق تھا۔ پیپلز پارٹی نے تو بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے، حکمران سیاسی جماعتوں نے اسے سونے کی چڑیا سمجھ رکھا ہے۔ کروڑوں روپے کی گاڑیوں میں مرتضیٰ وہاب شہر کا دورہ فرماتے ہیں، 10 گاڑیوں کا قافلہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے، لاکھوں روپوں کا پٹرول صرف دورے کرنے پر خرچ کررہے ہیں۔ کراچی کے مسائل پر صرف جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو سچ اور حق بولتی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کراچی کے ہر مسئلے پر آواز حق بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ حالیہ بارش اور عیدالاضحیٰ کے بعد تو شہر کی تباہ حالی روز میڈیا دکھا رہا ہے۔ آج شہر میں جگہ جگہ آلائشیں تعفن پھیلا رہی ہیں مگر کوئی ان کو اٹھانے والا نہیں۔ سیوریج کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے، کوئی افسر یا عملہ علاقوں میں نظر نہیں آتا، ایک اشتہار اخبار میں شائع کروا دیا جاتا ہے کسی بھی ہنگامی صورت حال پر ان موبائل نمبروں پر رابطہ کریں مگر وہ نمبر کوئی اٹھاتا ہی نہیں یا موبائل بند ملے گا۔ یہ کراچی کی عوام کے ساتھ اداروں کا مذاق ہے۔ دنیا میں بارشوں سے پہلے ہی اقدامات شروع کردیے جاتے ہیں اور ہماری بلدیہ دوران برسات نالوں اور برساتی نالوں کی صفائی کا کام شروع کرتی ہے۔ نارتھ کراچی سیکٹر 11-K کی روڈ کے ساتھ نالوں کی صفائی کی جارہی تھی مشینوں کی مدد سے سارا کچرا باہر نکال کر ڈال دیا تھوڑی دیر کے بعد تیز بارش شروع ہوگئی، میں نے خود دیکھا کہ جو گندگی اور کچرا نالے سے باہر نکالا گیا تھا وہ بارش کے پانی کے ساتھ ان ہی نالوں میں واپس چلا گیا۔ یہ نظام ہے ہمارے شہر کا، ہمارے
ملک میں محکمہ موسمیات موجود ہے جو بارش کی پیش گوئی کردیتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے۔ سڑکوں سے نکاسی آب کا انتظام کیا جاتا جب باران رحمت باران زحمت کا باعث بنتی ہے تو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ اداروں کو الرٹ رہنے کی ہدایات جاری کردیتے ہیں مگر بارش کے دوران کسی بھی سرکاری ادارے کا عملہ روڈوں پر نظر نہیں آتا رین ایمرجنسی کے تمام دعوے دھرے رہ جاتے ہیں۔ مرتضیٰ وہاب ایک سیاسی جماعت کے کارکن ہیں مگر افسوس کراچی کے عوام کی بے بس آپ کو نظر نہیں آتی ابھی تو محکمہ موسمیات کی بارش کی پیش گوئی باقی ہے آپ دوران بارش ناگن چورنگی سے 4K کی چورنگی تک موٹر سائیکل پر سفر کرکے خود دیکھیں یا گودھرا سے اللہ والی تک کے روٹ پر گاڑی میں بیٹھ کر سفر کرکے دیکھیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ کراچی کے عوام کتنے قابل رحم ہیں مگر آپ کو تو سیاسی بنیاد پر ایڈمنسٹریٹر لگایا گیا ہے آپ کی صحت پر کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ آپ اگر ایڈمنسٹریٹر نہ بھی رہے تو وزیر یا وزیراعلیٰ کے مشیر بن جائیں گے۔ آپ پر امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے جو چارج لگایا ہے وہ بالکل سچا ہے انہوں نے کہا کہ بارش سے پیدا ہونے والی سنگین صورت حال تقریباً پورا شہر بارش کے پانی میں ڈوبا رہا عوام ذہنی و جسمانی اذیت کا شکار رہے۔ عیدالاضحیٰ کے دوران آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کے ناقص انتظامات شہر میں صفائی ستھرائی کی بدترین صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے مرتضیٰ وہاب کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا اور غیر سیاسی ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے کا اچھا مطالبہ کیا مگر حافظ صاحب میرے پیارے بھائی آپ نے سنا تو ہوگا دلہن وہ ہی جو پیامن بھائے، آپ کے شہری مسائل کے حوالے سے جاری بیانات اور عوامی مسائل کے حل کے حوالے سے کیے جانے والے احتجاج ریکارڈ پر موجود ہیں یہ اب عوام کو الیکشن کے دوران سوچنا ہے کہ کون اپنا ہے۔
کراچی والوں نے فرقہ واریت کا دور بھی دیکھا ہے، لسانی بنیادوں پر قوم کو تقسیم کرنے کے عمل کو بھی دیکھا ہے۔ شہر کراچی نے نہ جانے کیا کیا دیکھا ہے ابھی حالیہ بارشوں میں اکثر سڑکوں پر کئی فٹ گہرے گڑھے بن گئے ہیں۔ جن پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے مگر افسوس کہ ہنگامی صورت حال صرف اخباری بیانات اور پریس کانفرنس کی حد تک ہی نظر آتی ہے یہ تو کراچی کے عوام دعا دیں محترم نعمت اللہ خان کو اور مصطفی کمال کو کہ جن کے کاموں کی وجہ سے آج بھی بارش کا پانی نکل رہا ہے۔ نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال کا دور بلدیہ کا سنہری دور تھا لوگ آج بھی اس دور کو یاد کرتے ہیں۔ فاروق ستار کا دور سفارشی اور کرپٹ دور تھا ان کی بیگم کی این جی او نے خوب مال کمایا۔ وسیم اختر بھی کرپشن میں کچھ کم نہیں تھے، سرکاری گاڑیاں گھر پر استعمال ہورہی تھیں، بیگم اور بچے سرکاری گاڑیوں میں مزے کرتے رہے۔
کراچی 1947ء سے ہر طرح کے تشدد کا شکار رہا ہے اب ایک بار پھر بھائی کو بھائی سے لڑانے کی سازش ہورہی ہے۔ سندھی اور پٹھان کو لڑوایا جارہا ہے حکمران طبقہ لوگوںکو آپس میں لڑوا کر انتشار پھیلانا چاہتا ہے اور اسی طبقے نے 35 سال سے لسانیت و عصبیت کے نام پر کراچی کو یرغمال بنائے رکھا مگر اب وقت آگیا ہے کہ لسانیت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ جماعت اسلامی عملی طور پر کراچی کی سیاست کے عروج پر ہے اب کسی کو بدمعاشی نہیں کرنے دی جائے گی۔ کراچی والوں کی یہ غلطی تھی کہ انہوں نے جماعت اسلامی کو چھوڑ کر ایم کیو ایم کا ساتھ دیا پھر کیا ہوا کراچی پر کراچی والوں نے ظلم کا پہاڑ توڑ دیا، بھتا دیں کراچی والے، زکوٰۃ دیں کراچی والے، قربانی کی کھالیں دیں کراچی والے، گولیاں کھائیں کراچی والے آج اللہ کا کرم ہے گولی اور تشددکی سیاست ختم ہورہی ہے اس کو ختم کرنے میں جماعت اسلامی کا ایک اہم کردار ہے۔ جماعت کا ہر کارکن کسی سپاہی سے کم نہیں ہے ایک آدمی پورے علاقے کے مسائل کے حل کے لیے علاقے میں کام کرتا نظر آتا ہے۔ ابن آدم ذاتی طور پر جماعت اسلامی کو ایک حقیقی سیاسی و مذہبی جماعت کو تسلیم کرتا ہے نہ تو جماعت میں جاگیردار ہیں اور نہ سرمایہ دار، جماعت اسلامی عام آدمی کی واحد جماعت ہے جو گرائونڈ لیول پر کام کرتی ہے ویسے بھی دنیا میں بڑی تبدیلی آرہی ہے یہ وقت جدید ٹیکنالوجی کا وقت ہے کراچی کو اپنی سیاست کا اکھاڑہ بنانے والوں کی سیاست اب دم توڑ چکی ہے۔
بلدیاتی الیکشن کا وقت سر پر آگیا ہے ایک زرداری کی یہ کوشش ہے کہ کس طرح سے بھی کراچی کا میئر پیپلز پارٹی سے ہو مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اب سب سیاسی جماعتوں کا مقابلہ جماعت اسلامی سے ہے۔ ایم کیو ایم کو کراچی والے آزما کر دیکھ چکے، پاک سرزمین پارٹی کے پاس تو الیکشن لڑنے والے امیدوار نہیں ہیں۔ کراچی کا حقیقی سپوت حافظ نعیم الرحمن کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں میئر کے امیدوار ہیں۔ کراچی والوں پر تمہاری خوش قسمتی ہے کہ حافظ نعیم الرحمن جیسا نڈر اور بہادر رہنما تمہاری قسمت کو بدلنے کے لیے الیکشن لڑ رہا ہے کراچی والوں ابن آدم تم سے اپیل کرتا ہے کہ الیکشن والے دن گھروں سے لازمی طور پر نکلو اور ترازو پر مہر لگائو اگر تم کراچی کی ترقی چاہتے ہو، کیا تم نہیں چاہتے کہ شہر سے لاقانونیت کا خاتمہ ہو، تم نہیں چاہتے کہ شہر صاف ستھرا ہوجائے، تم نہیں چاہتے کہ تمام سڑکوں کی مرمت ہوجائے، تم نہیں چاہتے کہ ہر گھر کو پینے کا پانی میسر آجائے، تم نہیں چاہتے کہ سیوریج لائنیں تبدیل ہوجائیں، تم نہیں چاہتے کہ سرکاری اسپتالوں کی حالت بہتر ہو، تم نہیں چاہتے کہ تمہارے ٹیکس کا پیسہ ایمانداری سے تمہارے اپنے شہر پر لگے، تم نہیں چاہتے کہ شہر سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے، تم نہیں چاہتے کہ شہر سے جرائم کا خاتمہ ہو، تم نہیں چاہتے کہ شہر میں موجود مافیا کا خاتمہ ہو، اگر تم یہ سب چاہتے ہو تو دماغ میں بس ایک نام حافظ نعیم الرحمن اور نشان ترازو کو نقش کرلو، پھر دیکھنا تمہاری قسمت کس طرح سے چمکے گی۔ فیصلہ کراچی والوں کو کرنا ہے، غلامی سے نجات حاصل کرنی ہے تو حافظ نعیم الرحمن کو کامیابی سے ہمکنار کروانا ہے۔ پاکستان زندہ باد۔