بڑھتا اخلاقی بحران

650

ہر دوسرے دن اخبار میں کسی لڑکی کے بھاگ جانے یا کسی معصوم کے ساتھ زیادتی کی خبر موجود ہوتی ہے۔ دعا زہرا کیس میڈیا کی اسکرین پر ابھی تک موجود ہے۔ موبائل او ر انٹرنیٹ کے عہد نے اور مفاد پرستوں کے عروج نے پاکستانی معاشرے کو اخلاقی طور پر زیرو زبر کردیا۔ آج چھوٹی چھوٹی معصوم بچیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ معاشرے میں ایسے سفاک عناصر کی اتنی کثرت ہوگئی ہے کہ جس کا ماضی میں تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ برطانوی سامراجی دور کے ایک افسر نے اپنی ایک تحریر میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ چوری اور قتل جیسے اخلاقی جرائم میں مسلمان بہت کم مبتلا ہوتے ہیں، لیکن آج یہ عالم ہے کہ خونیں رشتے بھی اعتماد کے قابل نہیں رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال نظام کی ناکامی بھی ہے، سیاسی اور ذہنی قیادت کی ناکامی بھی ہے، ریاست اور اس کے اداروں کی بھی ناکامی ہے۔ طاقتور طبقات میں اخلاقی رول ماڈل کا فقدان ہے۔ شرافت اور نیکی کو کمزوری اور بے بسی کا عنوان قرار دے دیا گیا ہے۔ نیکی غیر منظم اور کمزور ہے جب کہ برائی اور ظلم کی طاقتیں منظم ہیں۔قدرت کا اصول یہ ہے کہ جب کسی قوم کے حکمران بگڑ جاتے ہیں تو قوم ان سے بھی زیادہ بگڑ جاتی ہے۔ جب تک حکمرانی پر ایسے لوگ نہیں ہوں گے جو اپنے آپ کو قوم کا خادم سمجھیں اور قوم کی اخلاقی تربیت بھی اپنی ذمے داری سمجھیں اْس وقت تک حالات کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔