!!کیا بھول گئے ہو اے لوگو

681

یہ ان دنوں کی بات ہے جب کسی قسم کا اظہار رائے جرم اور ایک دہشت گرد جماعت ایم کیو ایم کے خلاف کچھ بولنا قطعاً آسان نہ تھا بولنے والوں کی زبان اور لکھنے والے کے ہاتھ کاٹ دیے جاتے تھے اور زیادہ مزاحمت کرنے والوں کو ان کے ناپ کی بوریوں میں بند کرکے لاشے سڑکوں پر پھینک دیے جاتے تھے لوگوں میں سخت بے چینی اور اضطراب موجود تھا مگر خوف نے ہر کسی کو مصلحت پسندی کا لبادہ پہنا دیا تھا، نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں وہ کچھ کرنا پڑتا جو انہیں ناپسند تھا اس وقت بھی شہر قائد میں کچھ نہیں جماعت اسلامی کے کارکنان کی ایک کثیر تعداد ایسی تھی جو ان ظالموں کے خلاف ڈٹی ہوئی تھی اور اپنے قول اور فعل ہر دو سے ان کے خلاف اپنی شدید نفرت اور بیزاری کا اظہار کر رہی تھی کراچی کے تمام نو گو ایریا کے محصورین کو یہ باور کرا رہی تھی کے تم اٹھو یا نہ اٹھو ہم جاگے ہوئے ہیں تمہارے حق اور تمہاری آزادی کے لیے اور لوگوں کے اس حق اور آزادی کے لیے جماعت اسلامی کے بے لوث کارکنان نے ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کے تمام ظلم بھی سہے اور اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا اور اسی شہر کراچی میں دو سال کے دو ماہ مئی میں بیک وقت اپنے شہیدوں کے درجن درجن جنازے اٹھائے کہیں بھی پیٹھ نہ دکھائی اور نہ ہی کسی بزدلی کا مظاہرہ کیا نہ ہی اپنے پائے ثبات میں کوئی لغزش آنے دی۔
جماعت اسلامی کی جدوجہد رنگ لائی جس کے نتیجے میں شہر قائد کے باسیوں کو ظلم اور جبر سے نجات حاصل ہوئی مگر شومئی قسمت اس شہر کے باسیوں نے ایک بار پھر اپنے محسنوں کو نہ پہچانا ان کی خدمات کو بھول کر نئے جھنڈے نئے نشان اور نئے نعرے کے دھوکے میں آگئے اور انہیں یعنی پی ٹی آئی کو اپنے سر کا تاج بنایا جو کہیں سے نہ تو کراچی کے اسٹیک ہولڈر تھے اور نا ہی اس قابل جنہوں نے ریاست مدینہ کی جھوٹی دعویداری کی اور جو یوٹرن کے ماسٹر کہلائے ہر اس وعدے کی خلاف ورزی کی جو انہوں نے شہر قائد کے باسیوں سے کیا تھا جن میں کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے پہلے 162 اور بعد میں گیارہ سو ارب روپوں کا پیکیج سر فہرست تھا اس جماعت کے وزیر اعظم نے ملک بھر کی پانچ نشستوں سے انتخاب جیتا تھا جس کا وعدہ تھا کے وہ جیت کے بعد تمام نشستوں سے دستبردار ہو جائے گا مگر کراچی کی نشست کو نہیں چھوڑے گا اس لیے کے وہ کراچی کو اپنا سمجھتا ہے مگر اس کی بے گانگی دیکھیں کراچی کی نشست چھوڑنا تو درکنار اس نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں کراچی کو درجن بھر دوروں کے قابل بھی نہ جانا اور نہ ہی کراچی میں ایک رات کا قیام ضروری سمجھا۔ ساکنان شہر نے انہیں اپنی معصومیت اور خلوص کا بھر پور نذرانہ پیش کیا تاہم اسی شہر کراچی سے جیتنے والے وزیراعظم، ڈینٹل سرجن صدر پاکستان اور مٹک مٹک کر اپنی آواز کا جادو جگانے والے گورنر اور ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والے وزراء اور مشیران نے ان کی اس ہمدردی کا کوئی صلہ نہ دیا، شہر قائد کے باسیوں کا مقدر وہی ٹوٹیں پھوٹی سڑکیں، دھواں اُڑاتی بسیں، تین پہیوں پر چلنے اچھلنے والے موت کے سوداگر چنگ چی رکشے، ٹینکر مافیا کی منتیں، اُبلتے گٹر کی بدبو، کچروں کے ڈھیڑ ہی رہے ان کی قربانیاں نظر انداز کی گئیں۔ جماعت اسلامی کے پر خلوص لوگ جو خدمت کو عین عبادت جانتے ہیں وہ پھر بھی ڈٹے اور کھڑے رہے انہوں نے اپنوں کے اس طرز عمل پر ان سے کوئی شکوہ نہ کیا نہ ان سے بیزاری کا اظہار بلکہ وہ ان کے حقوق کی جدوجہد میں حد سے آگے بڑھ کر اپنی ملازمتیں، کاروبار، چین و ارام کی فکر کیے بغیر سرد موسم اور بارشوں کے انتہائی 29 قیمتی راتیں بھی ساکنان شہر کے حوالے کر دیں وہ ان سے یہی کہتے رہے تم نہ نکلو تم ہمارے اپنے ہیں اپنوں سے نہ گلہ کیا جاتا نہ ہی کوئی جواب طلبی تم بے شک ہمیں وہ رتبہ اور مقام نہ دو جس کے ہم مستحق ہیں مگر ہم ہیں تمہارے اور تمہارے ہی رہیں گے یہ شہر ہمارا ہے اور ہم ہی اس کے امین۔ آئو تم کو وہ بھولا سبق پھر سے یاد کرائیں جس نے تم کو ظلم اور جبر کے دور سے نکال کر سکھ اور چین کی ساعتیں نصیب کی تھیں اور اگر اس کے بعد بھی تم نی نکلے تو پھر تمہارا مقدر اور تمہارا نصیب
کیا بھول گئے ہو اے لوگو!
یہ دور پرے کی بات نہیں
جب اک گروہ انساں نے…
پُرامن شہر کراچی کو تاراج کیا برباد کیا
بھتا خوری لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت کو عام کیا
ٹی وی بیچ کے اسلحہ لے لو کس نے یہ پیغام دیا؟
’’حقوق یا موت‘‘ کا یہ نعرہ کس نے تشت از بام کیا؟
کیا بھول گئے ہو اے لوگو!!
شہر قائد میں جب جگہ جگہ خون بہے اور لوگ کٹے
املاک جلیں اموال لٹے
ماؤں کے لخت جگر اور بہنوں کے ارمان لٹے
یتیموں کی ایک فصل اُگی بہنوں کے سہاگ لٹے
کیا بھول گئے ہو اے لوگو!!
جب گلی محلے بازاروں میں دہشت کا سناٹا تھا
کارخانوں میں تالہ بندی درسگاہوں میں ہنگامہ تھا
کتابیں پھینک کر بچہ بچہ اسلحہ لہراتا تھا
کیوں کرفیو کا سناٹا تھا… شہر کیوں اندھیارا تھا؟
کیا بھول گئے ہو!!
جب عصبیت کی لہر اٹھی اور قومیت کی بات چلی
جب اپنوں ہی کے ہاتھوں یہ قوم خود ہی برباد ہوئی
تب قوم کے جھوٹے قائد نے
دیس بھی بدلا بھیس بھی بدلا
اپنے کرتے پاجامے کو سوٹ سے بدلا ٹائی سے بدلا
کیا بھول گئے ہو اے لوگو!!
کراچی کے لوگو!! اب جاگ اٹھو
بدلوں اپنی تقدیریں، توڑو ظلم کی زنجیریں
چوروں اور لٹیروں سے پیچھا اپنا چھڑوالو
کراچی کے لوگو!! اب جاگ اٹھو
نشان عدل اب تھامو، قائد اپنا پہچانو
کراچی کے لوگو!! اب تم پر
یہ قرض بھی ہے اور فرض بھی ہے