بہت کچھ لکھا گیا

678

پانچ جولائی 1977 پر بہت کچھ لکھا گیا تاہم جو کچھ پروفیسر غفور لکھ گئے ہیں، اس کا کوئی توڑ نہیں ہے، نہ اس کا جواب آج تک کوئی دے سکا، پارلیمنٹ ہائوس کے سینیٹ فلورپر جائیں تو سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی کے دور میں بھٹو اور پاکستان قومی اتحاد کے زمانے کی ایک کچھ تصویری جھلکیاں ملتی ہیں، ایک ایسی میز بھی دکھائی گئی جس پر ایک جانب بھٹو اپنے دو ساتھیوں کوثر نیازی اور حفیظ پیرزادہ کے ساتھ ہیں اور سامنے مولانا مفتی محمود اپنے ساتھیوں نواب زادہ نصراللہ خان اور پروفیسر غفور احمد کے ساتھ بیٹھے نظر آتے ہیں، اسی فلور پر ایک جانب دستور گلی بنائی گئی ہے جس میں قیام پاکستان سے لے کر آئین میں تبدیلیوں کی ایک مختصر سی داستان ملتی ہے، کہنے کو تو یہ تصویں پلاسٹر آف پیرس سے بنائی گئی ہیں لہٰذا مجسمے ہیں، لیکن ان کے اندر چھپی خبر یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی راہنماء آج بھی مجسموں سے زیادہ اور کچھ نہیں ہیں، معیشت آئی ایم ایف کے سہارے چل رہی ہے اور جمہوریت ان کے سہارے چل رہی ہے جنہیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے تمغہ جمہوریت دینے کی بات کی تھی، آئی ایم ایف ہے وہ ہمیں ’’دو وقت کی روٹی‘‘ نہیں دے رہا، بس ایک آسرا دیتا ہے اور اگلی بار آنے کا پھر کہہ دیتا ہے، یہ کھیل ابھی بھی جاری ہے، وہ جنہیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے تمغہ ٔ جمہوریت دینے کی بات کی تھی، انہی کے کچن میں جاکر پکوڑے تل کر انہیں کھلائے تھے تب کہیں جاکر حکومت ملی، قیام پاکستان سے لے کر آج تک، حساب لگا لیجیے۔
1956 تک، تو ہم تاج برطانیہ کے قائم مقام تھے، یہ تاریخ ہے، اور کھلی کتاب، جب تاج برطانیہ سے آزاد ہوئے تو ہمیں پہلا اقتدار اور حکمران ایوب خان کی صورت میں ملا، اسی پہلے حکمران کے دور میں ایک ایسی آندھی چلی کہ مشرقی پاکستان بنگلا دیش کی جانب لڑھک گیا، اور بنگلا دیش کی پیدائش بھٹو اور یحییٰ خان کے لیبر روم میں ہوئی، تاہم پوری مسلم دنیا نے مل کر اس کے نام کی توثیق کی، بھٹو صاحب کو زعم تھا اور فخر کیا کرتے تھے کہ وہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ہیں، پہلے منتخب وزیر اعظم نے جب آئین دیا تو اگلے روز ہی بنیادی انسانی حقوق معطل کردیے، اپنے ہی ہاتھوں پاکستان کے نظام حکومت کو غیر موثر اور ناقص بنادیا جو کچھ کیا گیا اس کا اس نظام یا دستور پاکستان سے کوئی تعلق نہ ہے نہ کبھی سمجھا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ ہماری سیاسی تاریخ میں 5 جولائی ایک ناقابل فراموش دن ہے، وہ ایسے کہ ملک میں انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کرنے کی بنا پر سیاسی انتشار، بے چینی، امن وامان کے مسائل پیدا ہوئے، معاشی صورتحال ابتر ہوئی، ہڑتال، جلسے، جلوس، گرفتاریاں، تشدد، آنسو گیس، گولی سب کچھ ہوا، و جہ صرف ناقابل قبول انتخابی نتائج تھے، 1970 میں کیا ہوا تھا، انتخابی نتائج ہی تسلیم نہیں کیے گئے تھے ناں، پھر نتیجہ نکلا کہ مشرقی پاکستان الگ ہوگیا، بھٹو صاحب نے اس سے سبق نہیں سیکھا تھا، کمال ہے آج بے شمار ایسے سیاست دان ہیں، جو کہتے ہیں کہ وہ سیاست میں ہوتے تو بھٹو کو تختہ دار تک نہ پہنچنے دیتے۔
پانچ جولائی تو ملک میں ایک جانب تلوار ٹوٹنے اور دوسری جانب حلوے کی دیگیں پکانے اور بانٹنے کا دن بن کر تاریخ کا حصہ ہے، یہ دن اس لیے آیا کہ ایک جانب ضد تھی اور دوسری جانب نئے انتخابات کا مطالبہ، اور حد یہ تھی کہ ہمارے دوست ملک سعودی عرب کے سفیر صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے متحرک تھے، کرنل قذافی مصالحت کروانے کو تیار تھے، سعودی سفیر ریاض الخطیب بہت ہی زیادہ پریشان اور متحرک تھے، جن کی کوشش سے پی این اے اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ وزیراعظم بھٹو، وفاقی وزراء عبدالحفیظ پیرزادہ، کوثر نیازی اور اپوزیشن کی جانب سے مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد اور نوابزادہ نصراللہ خان پر مشتمل مذاکراتی ٹیم بنی، مذاکرات ہوئے، بات معاہدے تک جاپہنچی، مگر بھٹو صاحب بیرون ملک چلے گئے، جو تاک میں تھے انہیں آگے آنے کا موقع مل گیا، قومی اتحاد کو محمود علی قصوری، ایس ایم ظفر، بیرسٹر ظہور الحق، خالد اسحاق، عامر رضا اے خان، ایم انور با ر ایٹ لا، مرزا عبدالغفور، نسیم فاروقی، سید احد یوسف، رانا عبدالرحیم اور اسماعیل چودھری جیسے قانون دان میسر تھے لہٰذا ٹیلی فون ٹیپ کرنا، انتخابی عملہ کی تعیناتی، آزادانہ، منصفانہ، غیر جانبدارانہ انتخابات اور چیف الیکشن کمشنر کو مزید اختیارات وغیرہ دینا مسودہ مذاکرات میں شامل تھا۔
بھٹو نے کہا تھا کہ قومی اتحاد کو امریکا کی حمایت حاصل ہے وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان ایٹمی قوت بنے، تاہم بھٹو جو چاہتے تھے اس میں کامیاب نہ ہوسکے، وہ ریفرنڈم کروا کے خود کو وزیراعظم کنفرم کروانا چاہتے تھے مگر یہ کام نہیں ہوسکا سب کچھ بے سود رہا، قومی اتحاد کی یہ تحریک بہت قریب سے دیکھی ہے، ایک روز بھٹو نے اعلان کیا کہ جمعہ کی چھٹی ہوا کرے گی، شراب خانے بند کر دیے گئے ہیں دوسری جانب اسلامی نظریاتی کونسل غیر موثر بنا دیا۔ جسٹس حلیم اس کے سربراہ بنائے گئے تاہم ملک میں سیاسی عدم اعتماد کی فضا تھی پی این اے بھٹو کا استعفا مانگ رہا تھا، اب آج کی سیاسی صورت حال کیا ہے؟ تحریک انصاف ملک کی سیاسی تاریخ کو سمجھنے کے بجائے الجھ رہی ہے، بھٹو اپنے سیاسی مخالفین کی کردار کشی کرتے تھے اور ان کا انجام بھی تاریخ کا حصہ ہے تاہم بھٹو ہاتھ ملانے اور مذاکرات کے ہامی تھے لیکن تحریک انصاف ایسا نہیں چاہتی اس میں عدم برداشت اور تحمل کی شدید کمی ہے، تحریک انصاف کچھ آگے بڑھے گی تو بات ہوسکتی ہے ورنہ فوج انتخابات نہیں کراتی وہ صرف مارشل لا لگا سکتی ہے اس کا اب امکان نہیں تحریک انصاف کو چاہیے کہ رویہ تبدیل کرے اگر روش نہ بدلی تو گرفتاری بعد میں ہوگی اور تفتیش پہلے ہوگی اور انتخابات بھی فوج نہیں سیاسی حکومت ہی کروائے گی، اسے پتھر پر لکیر سمجھا جائے۔