جی 20 اجلاس مقبوضہ کشمیر کو فلسطین بنانے کی سازش

524

بھارت اسرائیل دوستی اور پاکستان چین روس سے پاکستان کی ہوتی دوریوں نے بھارت کو بھی اس بات کا موقع دیا ہے کہ جی20اجلاس مقبوضہ کشمیر میں انعقاد کیا جائے اس طرح بھارت کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کو یروشلم کی طرح بھارت کا حصہ بنانے کی سازش کو مکمل کرے۔ جس طرح اسرائیل نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرانے کے لیے امریکا کو سفارت خانہ بنانے پر مجبور کردیا تھا اسی طرح بھارت نے بھی 5اگست 2019ء کی ترمیم کی مدد سے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرلیا اور اب پوری دینا سے یہ تسلیم کرانے کے لیے جی 20اجلاس منعقد کرا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جی 20 ممالک کے اجلاس یا تقریب منعقد کرنے سے متعلق خبروں پر ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان ایسی کسی بھی کوشش کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ’’متنازع‘‘ علاقہ ہے۔ یہاں G20 ممالک سے متعلق اجلاس یا کسی تقریب کے انعقاد پر غور کرنا ایک خیانت ہے جسے بین الاقوامی برادری کسی بھی صورت قبول نہیں کر سکتی۔ بھارت کی جانب سے ایسی متنازع تجاویز 7 دہائیوں سے جاری ہیں اور غیر قانونی اور جابرانہ قبضے کے لیے بین الاقوامی قانونی جواز تلاش کرنے کے لیے تیاری کی جا رہی ہے۔ ترجمان نے اس دوران ایک عجیب بات یہ بھی بتائی کہ جی 20 کے اراکین قانون اور انصاف کے تقاضوں سے پوری طرح آگاہ ہوں گے اور اسے یکسر مسترد کر دیں گے ماضی کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ عالمی برادری نے ہمیشہ بھارت کا ساتھ دیا ہے۔ جی 20 کے ارکین میں ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، روس، ہسپانیہ، سعودی عرب، جنوبی افریقا، ترکی، ریاستہائے متحدہ امریکا اور یورپی یونین شامل ہیں۔ ان 20ممالک میں صرف ترکی ہی ایک ایسا ملک جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے وہ پاکستان کا ساتھ دے گا۔
جون2022ء کو بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماؤں، تنظیموں نے جی 20 ممالک کو خبردار کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی طرف سے متنازع قرار دیے گئے جموں وکشمیر میں کانفرنس کا انعقاد کر کے عالمی ادارے کی ساکھ کو مجروح کرنے سے گریز کریں۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماؤں مولوی بشیر احمد عرفانی، ایڈوکیٹ دیویندر سنگھ بہل، ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی، جموں و کشمیر مسلم لیگ اور جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے سرینگر میں جاری اپنے بیانات میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں جی 20 اجلاس منعقد کرنے کے بھارتی منصوبے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام بین الاقوامی طور پر متنازع جموں و کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کو جائز قرار دینے کے مترادف ہے۔ ان ملکوں کو جو انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی حمایت کر رہے ہیں جموں و کشمیر کا دورہ کرنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے مقبوضہ علاقے میں دس لاکھ سے زائد بھارتی قابض فوجیوں کی طرف سے جاری انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ ان ملکوں کو بھارت سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ تنازع کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کریں۔ حریت رہنماؤں اور تنظیموں نے بھارت پر بھی زور دیا کہ وہ متنازع جموں وکشمیر میں جی 20 ملکوں کے اجلاس کے انعقاد کے بجائے جنوبی ایشیا کو پرامن، مستحکم اور خوشحال بنانے کے لیے کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق، حق خود ارادیت دے۔
بھارت 7 دہائیوں سے جاری غیر قانونی اور جابرانہ قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے بین الاقوامی قانونی جواز تلاش کر رہا ہے، بھارت سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں کا سد باب کرنے کے لیے 5 اگست 2019 کے بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو منسوخ کرنے اور حقیقی کشمیری رہنماں سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کرے۔ لیکن اصل صورتحال یہ ہے کہ پاکستان اپنے ہی پڑوسی ممالک سے بھی رفتہ رفتہ تعلقات خرابی کی طرف گامزن ہے۔ ایک طویل عرصے بعد روس سے تعلقات میں بہتری کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور صدر پیوٹن نے پاکستان آمد کی تیاری بھی شروع کر دی تھی لیکن دونوں ممالک کے تعلقات میں اس قدر خرابی آ گئی ہے کہ روس نے اپنی فضائی حدود پاکستانی ہوئی پروزوں کے لیے بند کر دی ہے جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پاکستان نے روس کی فضائی حدود فیس کی ادائیگی نہیں کی ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کا 23-24 فروری 22کو ماسکو کا دورہ یوکرین پر روس اور مغرب کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران جنوبی ایشیا میں بدلتی ہوئی جیو پولیٹیکل صورت حال اور یہاں وجود پاتے نئے اتحادوں کی طرف اشارہ کررہا جس کی تکلیف امریکا اور یورپ کو تھی۔ یو کرین روس کے جنگ کے ماحول میں مغربی دباؤ کے باوجود کسی پاکستانی سربراہ کے دورۂ روس کا فیصلہ نشان دہی کرتا رہا کہ اسلام آباد ماسکو کے ساتھ اپنے ابھرتے ہوئے اسٹرٹیجک تعلقات کو اہمیت دیتا ہے۔ یہ بات نہ امریکا کو پسند تھی اور اس کی پاکستان میں موجود اسٹیبلشمنٹ کے ارکان کو بھاتی تھی لیکننہ جانے کیوں عمران خان نے ان کو اپنی کابینہ میں شامل کر رکھا تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے پاکستان کے دفتر خارجہ کو اس دورے پر نظر ثانی کرنے کی کال کی گئی تھی جسے شائستگی سے مسترد کر دیا گیا۔ پاکستان نے بتایا کہ اس دورے کا منصوبہ روس اور یوکرین کے بحران سے بہت پہلے کا تھا اور اس دورے کا روس اور مغربی کشیدگی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ تاہم یہ بات بھی واضح ہے کہ روس کے ساتھ قربت اختیار کرنے کا برہنہ اشارہ دے کر پاکستان کو اس مغربی دنیا سے مزاحمت کا سامنا ہو سکتا تھا جس پر پاکستان کی معیشت اور اقتصادیات کا انحصار ہے۔ اس کے بعد چند ماہ میں پاکستان کی اقتصادی بر بادی کا جو طوفان آیا اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے اور اب پاکستان کے چین اور روس دونوں سے تعلقات تباہ کن صورتحال سے دو چار ہیں۔ ان حالات میں بھارت کو کشمیریوں پر ہو نے والے مظالم کو پاکستان کیسے روک سکتا ہے؟