جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اُتارا کرتے ہیں

600

ملک اس وقت سخت معاشی بحران کا شکار ہے موجودہ حکومت کے سخت فیصلوں نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے انسانوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت حتیٰ کہ ان کی آہ و بکا کی طاقت تک سلب ہو چکی ہے، مائیں اپنے بچے پردہ دار اور عزت مآب خواتین اپنا وجود بیچنے جبکہ معصوم اور مظلوم لوگ سولیوں پر لٹک جانے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں، حکومت کی طرف سے روزانہ کی بنیاد پر نفاذ کردہ نت نئے فیصلے عوام کی تکلیف میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں مگر تمام تر اقدامات اور علاج کے باوجود درد ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے وجہ اس کی صرف ایک ہے ہماری معیشت کے ارسطو جنہوں نے لاکھوں کے عوض بڑی بڑی جامعات سے جو سند حاصل کی ہے ان کی کتابوں میں وہ علاج سرے سے درج ہی نہیں جو مریض کو شفاء یاب کرسکے انہیں یہی سکھایا اور پڑھایا گیا کہ ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ محصولات میں اضافہ کر دو اسی باعث موجودہ حکومت نے بڑے صنعت کاروں اور اداروں پر سپر ٹیکس کا نفاذ کر دیا توجیہ اس کی یہ پیش کی گئی ہے کہ یہ ٹیکس ملک کی اشرافیہ پر لگا کر غریبوں کو فائدہ پہنچانے کی ایک کوشش ہے، گویا سلطانہ ڈاکو کو اس لیے ہمدرد جانا جائے کہ وہ امراء سے چھین کر غربا میں تقسیم کیا کرتا تھا۔ ان ماہرین معیشت کو کسی نے یہ نہیں بتایا کے سود کی بنیاد پر حاصل شدہ قرضہ اور مختلف نوعیت کے محصولات معیشت پر بوجھ ہوا کرتے ہیں گرداب سے نکلنے کے بجائے ڈوبنے کا سبب بنتے ہیں۔ بقول شاعر جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اُتارا کرتے ہیں اور جب کتابوں میں درج علاج سے فائدہ نہ ہو تو گھریلو ٹوٹکے کارآمد ہوتے ہیں۔ اخراجات زیادہ اور آمدن کم ہو جائے تو اخراجات میں مزید اضافے نہیں بلکہ اس میں کٹوتی کی جاتی ہے گزشتہ چار پانچ کالموں میں حکومت کو چند ناگزیر اقدامات پر توجہ دلائی گئی تھی مزید چند تجاویز نذر قارئین ہیں۔
1- توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے حکومتی اقدامات ابھی نافذ العمل ہوئے بھی نہ تھے کہ ان میں ترامیم کر دی گئیں اب کاروبار ہفتہ کے روز بھی ہوگا اور کافی شاپس ریسٹورانٹ اور دیگر دکانیں رات ساڑھے گیارہ بجے تک کھلی رہیںگی۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہم قدرت کی انمول نعمت ’’دن کی روشنی‘‘ سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرتے اور تمام دفاتر اور کاروبار کا آغاز صبح سات بجے تا سہہ پہر چار بجے کیا جاتا، بازار اور شاپنگ مالز دس شب تک کھلے رکھے جاتے، چھے گھنٹے کا وقت ہر طرح کی خرید فروخت کے لیے کافی ہے اور یہ خریداری روز بھی نہیں بوقت ضرورت کی جاتی ہے۔ جمعہ مبارک تمام کاروبار کی مکمل چھٹی حتیٰ کہ پٹرول پمپ دودھ دہی بیکرز میڈیکل اسٹور ماسوا ان کے جو کسی نجی کلینک یا اسپتال کے باہر ہوں بند رکھے جائیں۔
2- تمام درس گاہیں، جامعات اور اسکول کا آغاز بھی صبح سات بجے سے کیا جائے۔
3- تین دہائیوں پہلے پی ٹی وی ملک کا واحد سرکاری ٹی وی ہو کرتا تھا اب چینلوں کی بھر مار اور بھانت بھانت کے پروگرام ہیں خود ساختہ تجزیہ نگار اور ٹاک شوز کے میزبان جو واضح طور پر حزب اقتدار اور اختلاف کے نمائندے بنے ہوئے ہیں ان کی سنسنی خیز خبریں اور تجزیوں نے بھی لوگوں میں بے چینی اور خلفشار میں اضافہ کیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے تجزیے عوام میں باقاعدہ تفریق پیدا کر رہے ہیں کیبل آپریٹرز کو پابند کیا جائے کہ رات گیارہ کے بعد کسی قسم کی نشریات آن ائر نہیں ہوںگی اس طرح لوگوں کو جلد سونے اور صبح جلد بیدار ہونے کا پابند بنایا جا سکتا ہے۔
4- حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی سابقہ تنقیدوں کے عین مطابق کابینہ کا حجم کم کرے تین کے بجائے ایک سے کام چلائے، ابھی دن نہیں گزرے کابینہ میں کمی کے بجائے تین نئے مشیران کو کابینہ میں شامل کر لیا گیا ہے جن میں محترم اویس نورانی بھی شامل ہیں۔
5- سرکاری املاک اور اداروں کی فروخت انہیں گروی رکھ کر قرض کے حصول کے بجائے ان محکموں اور اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے جو صرف سیاسی مفادات کے غرض سے تشکیل دیے گئے اور وہ عوامی فلاح بہبود کے کچھ کام نہ کرسکے اور رشوت خوری کے بڑے اڈے بن گئے انہیں دوسرے محکموں میں ضم یا بند کر دیا جائے اس سے ان اداروں میں موجود گھوسٹ ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن کی بچت ہو گی، مثلاً سوشل سیکورٹی اور ای او بی آئی کا ادارہ احساس پروگرام ہیلتھ کارڈ بے نظیر انکم سپورٹ کے پروگراموں کے بعد نہ ان کی ضرورت باقی رہتی ہے نہ ہی ان کی افادیت ان راشی محکموں کے ملازمین کی خدمات بطور سزا فوج اور رینجرز کے حوالے کر کے انہیں سرحدی حفاظت کے غرض سے روانہ کر دیا جائے اور یہ سزا ہر اس شخص اور ادارے کے لیے رکھی جائے جو اس کام میں ملوث ہو۔
6- ہمارے ایوان جھوٹ، گالم گلوچ اور ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے اڈے ہیں ان میں قانون سازی کم اور شور شرابہ زیادہ ہوتا ہے اور ان سب کے باوجود حکومتی اقدامات اور فیصلوں کی منظوری ہو جایا کرتی ہے لہٰذا ملک میں بہتری آنے تک تمام ایوانوں کے اجلاس معطل کر دیے جائیں اور انتہائی ضرورت پر بذریعہ ویڈیو لنک اس کا اہتمام کیا جائے، اخراجات کی بیش بہا بچت ہوگی۔
7- بجلی کے بحران اور لوڈ شیڈنگ کے مقتولین بھی ملک کے غریب عوام ہیں اشرافیہ کے دفاتر سے ان کے گھر تک بجلی کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ نہیں جو عوام پر ظلم اور جرم کے زمرے میں آتا ہے لہٰذا جب تک اس بحران پر قابو نہ پایا جاسکے ایک حکم نامے کے ذریعے تمام سرکاری محکمہ کے اے سی اور الیکٹرونک اشیاء کے استعمال پر پابندی لگا دی جائے ماسوا کلیدی اور غیر ملکی مہمانوں کی امد اور میٹنگز کے۔
8- انتقال اراضی اور جائداد کی خرید فروخت پر محصولات کی وصولی کا کوئی نیا اور جدید سائنٹفک نظام بنایا جائے اس خرید و فروخت کے موقع پر عوام سے مختار کار اور ٹپہ دار جن کا کوئی وجود نہیں بھاری رقم وصول کی جاتی ہے مگر سرکاری کھاتے میں صرف بانڈ پیپر اور ایف بی آر کے محصول کی مد میں ایک قلیل رقم جمع کی جاتی ہے مثلاً ضلع ملیر کراچی کے دفتر میں 120 گز کے پلاٹ کے مد میں جو 60 تا 70 ہزار روپے وکیل کو دیے جاتے ہیں ان میں سے سرکار کو صرف پچیس ہزار ملتے ہیں باقی سارے کا سارا رشوت میں جاتا ہے اور جو باقاعدہ اپنے حق کے نام پر لیا جاتا ہے۔
8- شہر بھر میں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور بے ہنگم ٹریفک جام کی فکر کی جائے جس کے باعث لاکھوں کا ایندھن روزانہ اڑ جایا کرتا ہے جو فضائی آلودگی کا سبب بھی بنتا ہے فوری طور پر ان سڑکوں کی مرمت اور انڈر پاس کی تعمیر کا آغاز کیا جائے تاکہ پٹرولیم مصنوعات کی بچت ہو۔
10- پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کر دیا گیا وجوہ کچھ بھی ہوں یہ اضافہ عوام کا خون تک نچوڑنے کے مترادف ہے جو یقینا مزید مہنگائی کا باعث ہوگا سابقہ حکومت کے ان سورمائوں سے ایک سوال یہ تو بنتا ہے کے وہ اقوام متحدہ اور امریکا کی طرف سے لگی پابندی کے باوجود جس سستے پٹرول اور گندم کا معاہدہ روس کے ساتھ کرنے کا شور مچا رہے ہیں انہوں نے یہ کام پھر برادر اسلامی ملک ایران کے ساتھ کیوں نہ کیا یہ پابندی ان کے اوپر بھی ہے مطلب یہ کے نہ ان سورمائوں میں کوئی دم تھا نہ موجودہ شیروں میں۔ بیرونی سازش عوام کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں مہنگائی کی چکی عوام کے لیے ہے پیسا بھی اس میں انہیں ہی جانا ہے۔