کچھ کر گزرنے کا وقت ہے

588

پاکستان کے فیصلے کا ساتھ دیتے ہوئے چین نے بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر میں گروپ آف ٹوینٹی (جی ٹوینٹی) اجلاس منعقد کرانے کی بھارتی تجویز مسترد کردی ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر چین کا موقف مستقل اور واضح ہے۔ مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ بیان میں بھارت کی تجویز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ متعلقہ فریقین کو مسئلہ پیچیدہ بنانے والے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے۔ علاقائی امن و استحکام کے لیے تنازعات کو بات چیت اور مشاورت سے حل کرنا چاہیے۔ ہمیں یاد ہے کہ یہ کوئی پرانی بات نہیں تقریباً ایک ماہ قبل، پاکستان نے بھی بھارتی تجویز سے متعلق خبروں پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان بھارت کی ایسی کسی بھی کوشش کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ جموں و کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان تسلیم شدہ متنازع علاقہ سے جو 1947ء سے بھارت کے جبری اور غیرقانونی قبضے میں ہے۔ اس موقع پر ترجمان دفتر ِ خارجہ نے بیان دیا اور اس بیان میں یہ امید بھی ظاہر کی گئی تھی کہ جی ٹوینٹی ارکان یقینی طور پر مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے پوری طرح آگاہ ہیں اور وہ بھارت کی مذکورہ تجویز کو قانون اور انصاف کے تقاضوں کی روشنی میں رد کر دیں گے۔
بھارت مقبوضہ وادی کی بین الاقوامی اور عالمی سطح پر مسلمہ متنازع حیثیت کو یکطرفہ طور پر بدلنے کی مذموم کوششیں کررہا ہے جس کا لازمی نتیجہ جوہری قوت کے حامل دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کی شکل میں ہی برآمد ہوگا۔ اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اقوامِ متحدہ اور دیگر اہم بین الاقوامی اداروں کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مزید یہ کہ حکومت ِ پاکستان کو عالم اسلام اور خاص طور پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور دوست ممالک کو بھی اپنا ہم نوا بنا کر بھارت کے مذموم عزائم سے متعلق دنیا کو آگاہ کرنا چاہیے۔ عوامی جمہوریہ چین کی میزبانی میں برازیل‘ روس‘ انڈیا‘ چین اور سائوتھ افریقا پر مشتمل تنظیم (برکس) کے ہونے والے ’’عالمی ترقی پر اعلیٰ سطحی ڈائیلاگ‘‘ میں بھارت کی درپردہ کوششوں کے نتیجے میں پاکستان کو مدعو نہ کیے جانے پر حکومت پاکستان نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار احمد نے اس حوالے سے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ پاکستان عالمی برادری کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے برکس رکن ملکوں سمیت تمام ترقی پزیر ممالک کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس سال برکس کے ہونے والے مذکورہ اجلاس میں متعدد ترقی پزیر اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کو مدعو کیا گیا تھا۔
چین میزبان ملک ہونے کے ناتے برکس اجلاس سے قبل پاکستان کے ساتھ بات چیت میں شامل رہا ہے۔ برکس رکن ممالک کے ساتھ مشاورت کے بعد فیصلے کیے جاتے ہیں جبکہ غیر رکن ممالک کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان اور چین ہمہ وقت اسٹرٹیجک شراکت دار ہیں اور ہمارا آہنی بھائی چارہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔ پاکستان اور چین دوطرفہ اور کثیرجہتی سطحوں پر ہمہ جہتی تعارف کو اعلیٰ سطح تک لے جانے کے لیے پوری طرح پرعزم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور چین باہمی دوستی اور تعاون کی جس مضبوط لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ وہ اس قدر مستحکم ہے کہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ دوستی عشروں پر محیط ہے اور اس میں ہر گزرے دن کے ساتھ مضبوطی اور پائیداری پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ برکس نامی جس تنظیم کا اجلاس چین کی میزبانی میں منعقد ہوا‘ اس میں چین کے علاوہ برازیل‘ انڈیا‘ روس اور سائوتھ افریقا بطور رکن شامل ہیں۔ ان کے اجلاس باہمی مشاورت کے ساتھ منعقد ہوتے ہیں۔ بھارت چونکہ اس تنظیم کا رکن ہے اس لیے اس نے اپنے اثر رسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے اجلاس میں پاکستان کی شمولیت میں رکاوٹ پیدا کر دی اور پاکستان اس اجلاس میں شرکت سے محروم رہا جس نے پاکستان کی سفارت کاری اور کارکردگی پر بہت سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اس پر حکومت کو بالعموم اور وزارت خارجہ کو بالخصوص غور کرنے کی ضرورت ہے۔ خطے کے ممالک کے درمیان تعلقات اور ان میں بہتری موثر سفارت کاری کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمیں اس نوع کی پریشانیوں سے بچنے کے لیے اپنی سفارتی سرگرمیاں مزید متحرک کرنا اور اپنی کارکردگی کو مزید بہتر بنانا ہوگا۔ صرف اسی صورت بھارت جیسے مخالف ملک کے عزائم کا موثر توڑ کیا جا سکتا ہے۔