ورفعنا لک ذکرک

789

صحافت کے شعبے میں ادب کو ملحوظِ خاطر رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ایک لکھاری کے لفظوں کا معیاری ہونا نہایت اہم ہے لیکن آج جس موضوع پر میں لکھنے جا رہی ہوں وہ ایک بے ادب شخص کے بارے میں ہے اور میرے لیے لفظوں کا تعین کرنا نہایت مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن چونکہ معاملہ میرے ایمان کا ہے، معاملہ میرے نبیؐ اور میرے نبی کے پیارے صحابہؓ کا ہے، معاملہ نبی کی امت کا ہے، معاملہ میرے مسلمان بھائیوں کا ہے تو پھر نہ میری زبان رکے گی نہ میرا قلم۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ مسلمان ہر چیز برداشت کر سکتا ہے لیکن گستاخی رسول نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ لوگوں کو جہلم کے انجینئر محمد علی مرزا کے اندھے فریب کے بارے میں آگہی دی جائے۔ انجینئر محمد علی مرزا کوئی نئی بات نہیں۔ اس جیسے پہلے بھی کئی آئے اور اپنے انجام کو پہنچے، لیکن اپنے مقصد میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ انجینئر محمد علی مرزا کے خیالات ونظریات ناصرف یہ کہ گمراہ کن ہیں، اور انہیں دین متین سے بہت دور کر رہی ہیں، بلکہ رفتہ رفتہ یہ شخص نوجوانوں جو مذہب کے ساتھ ساتھ ملک سے بھی باغی بنا دے گا۔ اپنی چرب زبانی سے یہ جسے چاہے، اسے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ اماں عائشہؓ کے معاملے میں اس نے جس طرح سے نوپور شرما کی حمایت اور عرب ممالک اور امت مسلمہ کی مخالفت کی، اسی سے اس کی دو نمبری ظاہر ہو جاتی ہے۔
دوسرا اس نے دشمن ملک کی حمایت میں اپنا بیان دیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ملک پاکستان سے باغیانہ خیالات بھی رکھتا ہے۔ ہم اسے ’’غدار‘‘ کا خطاب دے کر اس کے لیول کو نہیں بڑھانا چاہتے ہیں۔ ہم تو اس کے وطن عزیز سے مجرمانہ خیالات کو پروان چڑھانے کے موقف کو آشکارا کرنا چاہتے ہیں، تاکہ مقتدر حلقے جان لیں کہ آج نہیں کل، یہ شخص اپنے جیسے اور مجرم بنائے گا۔ جسے فوری طور پر واچ کر کے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔
اوّل بات تو یہ ہے کہ مذہب ِ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ایمان کا مکمل ہونا ضروری ہے۔ اور جو شخص رسولوں پر ایمان ہی نہ لائے وہ کیسے مسلمان ہو سکتا ہے؟ بظاہر رسولوں پر ایمان لانے کے بعد آپؐ کی ذات اقدس پر سوال اٹھانے والوں کا ساتھ دینے والا بھلا کیسے مؤمن ہو سکتا ہے؟ انجینئر محمد علی مرزا اور اس کی تقلید کرنے والوں کو بتاتی چلوں کہ: نبی پاکؐ نے جتنی بھی شادیاں کی سیدہ بی بی عائشہ صدیقہؓ کے علاوہ سب بیوہ یا مطلقہ تھیں۔ اگر نبی کے اندر دنیا کی حرص و ہوس ہوتی تو جب اللہ نے آپ کے لیے پہاڑوں کو سونا بنانے کی پیشکش کی تو آپ منع نہ کرتے۔ جب آپ نے پہلا نکاح کیا تو وہ اپنے سے بڑی عمر کی عورت سے نکاح نہ کرتے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’آپؐ کی سیرت تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے‘‘۔
نبی پاکؐ نے امت کے لیے ایک مثال چھوڑی ہے۔ اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے چاہے وہ کنواری سے ہو یا بیوہ یا طلاق یافتہ سے۔ ایک شخص اگر چاہے تو کنواری سے وسعت ِ نکاح کے باوجود بیوہ اور طلاق یافتہ سے بھی شادی کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے پہلے نکاح کے لیے ایک ایسی خاتون کو منتخب کیا جو ایک مرتبہ نہیں، دو مرتبہ بیوہ ہوئی تھیں۔ یہ واضح کرنے کے لیے نبی اپنی خواہشِ نفس پر نہیں چلا کرتے تھے، وہ تو رب العالمین کی مرضی پر چلتے تھے۔
دوسرا جب ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی رخصتی ہوئی تو آپؓ بالغ ہو چکی تھی۔ اور چونکہ آپ عمر میں چھوٹی تھی لہٰذا نبی پاکؐ نے جس بہترین طریقے سے آپ کا خیال رکھا وہ امت مسلمہ کے مردوں کے لیے ایک بہترین مثال بن کر سامنے آئی۔ سیدنا محمدؐ آپؓ کو آپ کی سہیلیوں کے ساتھ کھیلنے دیتے۔ آپ کا خیال رکھتے۔ آپ سے بے انتہا محبت کرتے۔ آپ کی معیت میں سیدہ بی بی عائشہ صدیقہؓ نے جتنا علم سیکھا، عورتوں میں آپ سب سے زیادہ حدیثوں کی روایت کرنے والی بن گئیں۔ لوگ بڑے بڑے مسائل آپ سے پوچھتے۔ آپ نے نبیؐ کی صحبت میں نوخیزی میں علم سیکھنا شروع کیا اور بے پناہ علم حاصل کیا اور اسے میراثِ نبی سمجھتے ہوئے امت کے بچوں میں شفیق ماں کی طرح تقسیم کر دیا۔ نبی پاکؐ کا رتبہ تو عرش والا ہی جانتا ہے، فرشیوں کو اس کی کیا خبر۔ نبی پاکؐ کی ذات ِ اقدس تو وہ ذات ہے کہ جس کے لیے اس کائنات کو تخلیق کیا گیا۔ مسیلمہ کذّاب ہو، یا جاوید احمد غامدی کا فتنہ ہو، یا انجینئر محمد علی مرزا کا مکر ودجل، یہ سب تو ختم ہو جائیں گے مگر میرے نبی سیدنا محمد مصطفیؐ کا نام تا قیامت رہے گا کہ وہ محبوب الٰہی ہیں۔ وجہِ وجودِ تخلیق ِ کائنات ہیں۔ سرورِ کونین ہیں۔ فخر ِ موجودات ہیں۔ ان کا ثانی تو بڑے دور کی بات ہے۔
تاریخ اگر ڈْھونڈے گی ثانئی محمدؐ
ثانی تو بڑی چیز ہے، سایہ نہ ملے گا
معاشرے کی جہالت کو نور کی روشنی سے پْرنور کر دینے والی ذات اقدس جو مسلمانوں کے لیے اپنی جانوں سے زیادہ محبوب ہیں وہ کسی اور کی نہیں بلکہ محمد مصطفیؐ کی ہے۔ لہٰذا نہ کوئی آپ کا ہم پلہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی کی ایسی باتوں سے آپؐ کی یا آپؐ کے اہل و عیال کی شان میں کوئی کمی آتی ہے۔ بلکہ آپ کی محبت میں آپؐ کے پروانے جابجا سامنے آتے ہیں اور آپ کا نام اور بلند سے بلند ہوتا ہے کیونکہ رب عرش عظیم نے خود قرآن میں فرمایا: ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘۔
ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے تیرا ذکر ہے اونچا تیرا
مٹے ہیں، مٹ جائیں گئے اعداء تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا