مشکل فیصلے

548

میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیرا علیٰ تھے تو انہیں خادم اعلیٰ تو کہلانے کا بہت شوق تھا تو جنون کی حد تک بڑھا ہوا تھا اب وہ وزیر اعظم ہیں تو یہ بات یقینی ہے کہ خادم اعظم بھی بن گئے ہوں گے مگر اس کے آثارکہیں دکھائی نہیں دیتے معیشت کی بدحالی نے اتحادی حکومت کو ذہنی طور پر تباہ کر دیا ہے ان حالات کے بارے میں شیخ رشید نے کہا ہے عمران خان نے پٹرول کی قیمت کم کر کے اتحادی حکومت کے لیے ایسا گڑھا کھودا ہے جس میں گرنا یقینی ہے یہ بات تو اتحادی حکومت بھی اچھی طرح جانتی تھی اس کے باوجود اس نے عدم اعتماد کی تحریک لا کر تحریک انصاف کی حکومت کو بنی گالہ کا راستہ دکھانا ضروری سمجھا کیونکہ اتحادیوں کو اس حقیقت کا ادارک ہو چکا تھا کہ عمران خان کی حکومت ملک کو نا دہندہ کرنے کے لیے ہر کام کرنے پر آمادہ ہے جو ایک انتہائی خطر ناک سوچ تھی سو، ضروری ہو گیا تھا کہ عمران خان کو ایوان اقتدار کے باہر کیا جائے، ورنہ۔۔۔ ہمارے ایٹمی اثاثے بھی خطرے میں پڑ سکتے تھے۔
آئی ایم ایف کی کڑی شرائط نے حکمرانوں ہی کے نہیں ملک کے بھی کڑاکے نکال دیے ہیں جن سے نکلنا ایک دشوار عمل ہے یہ دشواری حب الوطنی کے سامنے بے بس ہو سکتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ حکمران عوام ہی سے نہیں ارکان اسمبلی اور بیوروکریٹ سے بھی قربانی طلب کرے عوام تو حکومت کے فیصلوں پر بے بس ہو تے ہیں حکومت جو بھی فیصلے کرے گی عوام اس پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہوں گے اصل مسئلہ بااختیار اور بااثر طبقے کا ہے اگر یہ ایثار اور قربانی کے جذبے کے کام لیںتو اقتصادی مشکلات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
پاکستان کی اصل بد نصیبی یہ ہے کہ شریف خاندان جاتی امرا کے ناسٹلجیا سے نکلنا نہیں چاہتا۔ عمران خان پیدائشی پاکستانی ہیں ناسٹلجیا ان کا مسئلہ ہی نہیں مگر وہ بنی گالہ کو نبی گالہ بنانے کے خواہش میں مبتلا ہیں۔ بھٹو خاندان احساس برتری کا مریض ہے وہ سمجھتا ہے بھٹوز حکمرانی کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ آصف علی زرداری نے کسی حد تک اس احساس برتری پرایک زرداری سب پر بھاری کا لیبل لگا دیا ہے اور مذکورہ احساس کا رخ اپنی جانب موڑ لیا ہے اگر یہ مقتدر خاندان خود کو پاکستانی سمجھنے لگیں تو تمام مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ مسائل پیدا ہی نہیں ہوں گے۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف جن مشکل فیصلوں کی بات کرتے ہیں ان کا تعلق اسٹیبلشمنٹ، ارکان اسمبلی اور پارلیمنٹ سے ہے ہم بارہا انہیں کالموں میں گزارش کر چکے ہیں کہ لوڈشیڈنگ اور مہنگا ئی ایسا مسئلہ نہیں جس پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہو، شرط یہ ہے کہ عوام کی جیبیں خالی کرنے کے بجائے مقتدر طبقہ بھی اپنی جیبیں خالی کرے، لوڈشیڈنگ کے لیے بااثر اور بااختیار طبقے کو جذبہ ایثار سے کام لینا ہوگا اور اس کا واحد حل یہ ہے کہ صاحب ثروت بجلی کے استعمال کے بجائے متبادل ذرائع استعمال کریں تو لوڈ شیڈنگ ختم ہو سکتی ہے۔
پٹرول یا دیگر اشیاء ضروریات کی قیمتوں پر اضافہ کرنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ غریب لوگو ں پر اس کا بوجھ نہیں پڑے گا خدا جانے وہ غریب طبقہ کہاں پایا جاتا ہے جس پر مہنگائی کا اثر نہیں پڑتا البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ طبقہ جاتی امرا، لاڑکانہ اور بنی گالہ میں ہو سکتا ہے بلکہ یقینا وہیں پر موجود ہے کیونکہ ان لوگو ں پر مہنگائی کو بوجھ نہیں پڑتا اگر سولہ اور سترہ گریڈ کے ملازم اپنی سواری استعمال کر سکتے ہیں تو بیس تا بائیس اپنی تنخواہ پہ گزارہ کیوں نہیں کر سکتے انہیں بیسیوں ملازم، درجنوں گاڑیاں، بے حساب پٹرول، ڈرائیور اور دیگر مراعات و سہولتیں کیوں دی جاتیں ہیں۔ کسی دل جلے نے سچ کہا ہے کہ اٹھارویں گریڈ میں ملازم ہونے والا شخص قوم پر بوجھ بن جاتا ہے اگر اس بوجھ سے قوم کو نجات دلا دی جائے تو قوم خوشحال اور ملک اقتصادی طور پر خود کفیل ہو سکتا ہے المیہ یہی ہے کہ یہ طبقہ عربی کفیل بنا قوم کے خون پسینے کی کمائی ہڑپ کرتا رہتا ہے۔ عرب ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ کفیل ہمیں کفالت کی منزل سے دور رکھتا ہے وہاں پر پاکستانیوں کو کم سے کم تنخواہ یا مزدوری دی جاتی ہے فلپائن کے لوگوں کو سب سے زیادہ تنخواہ اور مزدوری دی جاتی ہے اس کے بعد ہندوستانیوں کا نمبر آتا ہے۔ سعودی عرب سے آنے والے ایک شخص نے بڑی حیرت انگیز خبر دی ہے اس کی اطلاع کے مطابق سعودی عرب میں کسی فلپائن کے شخص کو جرم کی سزا نہیں دی جا سکتی اگر وہ قتل کا مرتکب ہو تب بھی اسے فلپائن کی عدالت ہی سزا سنانے کی مجاز ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ پاکستانیوں کو بھکاری سمجھتے ہیں وزیر اعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ کب تک چین اور عرب ہماری امداد کرتے رہیں گے ہمیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہیے چھوٹے میاں صاحب قوم تو اپنے پائوں پر کھڑی ہوئی ہے حکمران طبقے کا اپنے پائوں پر کھڑا ہونا بہت ضروری ہے حکمرانوں نے ایک ہاتھ میں کشکول اور دوسرے ہاتھ میں جھولی تھامی ہوئی ہے جب تک یہ کشکول اور جھولی ان کے ہاتھ میں ہے دنیا ہمیں بھکاری سمجھتی رہے گی حالانکہ بھکاری قوم نہیں حکمران ہیں حکومت کہتی ہے کہ بجٹ میںغریبوں کے بجائے امیروں پر ٹیکس لگایا ہے حکمران اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ صنعت کار یہ ٹیکس غریبوں کی جیب سے نکالیں گے بہتر ہوتا کہ صنعت کاروں کے منافع کا دس فی صد حصہ قوم کے نام کر دیا جاتا مگر ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ حکمران خود صنعت کار ہیں۔