وزیرِ اعظم صاحب بابو مکائو اور ملک بچائو

406

وطنِ عز یز کا المیہ یہی ہے کہ انگریز سرکار تو چلی گئی لیکن اپنی باقیات بیورو کریسی چھوڑ گئی، جس نے نہ تو ملک میں اسلام کا نفاذ ہونے دیا نہ پاکستان کی ترقی ہونے دی۔ بغور جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ ملکی معاملات میں خرابیوں کی ذمے دار یہی بیورو کریسی ہے۔ ان کی بڑی بڑی رہائش گاہیں، پروٹو کول کا خرچہ ان کے پٹرول اور ماتحتوں کا خرچہ، ان کے ٹی اے ڈی اے، غرض ان کا شاہانہ طرزِ زند گی جیسے دیمک لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ اس سلسلے میں زمینی حقائق کا منظر نامہ قابل غور ہے۔
تخلیقی و تدریسی کلچر کی نشوونما میں غیرتعلیمی قوتوں کے ہوس زر کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے، پورے نظامِ تعلیم کو مسخ کرنے کی تاجرانہ مہم جوئی اور کاروباری کوششوں نے طالب علموں سے امتحانات اور تحقیق و تدریس کی متاع گم گشتہ چھین لی ہے۔ آج قوم ایک باوقار اور صد فی صد شفافیت پر مبنی نظام تعلیم وتدریس کو ترس رہی ہے اور ٹیلنٹ کو دیس نکالا مل چکا ہے، لہٰذا جو ماہرین تعلیم اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں تدریس کی تاریخیں مرحلہ وار دے رہے ہیں انہیں خبر ہونی چاہیے کہ تعلیمی پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے اور تعلیم کے تاجروں، بوٹی مافیا نے قوم کی فکری مٹی سیم و تھور سے متاثرہ دلدلی زمین بنادی ہے۔ نئی نسل اس منطقی، فلسفیانہ اور سائنسی و تکنیکی سوچ سے میلوں دور پھینک دی گئی ہے۔ جن درس گاہوں کی اقدار سے آشنائی کی دولت کو ان کے معتبر استاد اپنی زندگی اور تعلیمی مشن کا سرچشمہ قرار دیتے تھے، آج بدقسمتی سے استاد اور طالب علم کے درمیان ایک ایسا بوالہواس طبقہ حائل ہوگیا ہے جس کا مقصد حیات شارٹ کٹ اور پیسہ بنائو کے سوا کچھ اور نہیں۔ اس لیے ماہرین تعلیم قوم کو بتائیں کہ ارباب اختیار تعلیمی آدرش کے کن آفاقی اصولوں کی روشنی میں نظام تعلیم مستقبل کی صورت گری کر رہے ہیں؟
یکساں تعلیمی نظام نافذ ہورہا ہے مگر ملکی نظام اقدار اور قوم کی بنیادی فکری اساس کی مضبوطی میں مادر علمی کی عملی حیثیت کیا ہے؟ کس نے تعلیم کو تجارت، نفع بخش پیسہ کی چابی ہاتھ میں تھمادی کہ پورا سماج تعلیمی جعل سازی اور دو نمبر کام کی نذر ہوگیا ہے۔ نظام امتحانات کی مٹی پلید ہوگئی، کنٹرولر امتحانات سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ وہ تمام طالب علم جن کے والدین اپنی حق حلال کی کمائی کو بچوں کی تعلیم پر خرچ کرنے کی فکر میں غلطاں تھے انہیں تعلیم فروشوں کی یلغار نے پریشان کردیا۔ اہل طلبہ و طالبات جو دن رات محنت سے پڑھائی کرنے میں منہمک ہیں وہ ان خبروں سے کس قدر متاثر ہوں گے اور وزارت تعلیم کے حکام کو ادراک ہے کہ پرچوں کے’’آئوٹ‘‘ ہونے کی مافیائی علم دشمنی میں کون سے پردہ دار ملوث ہیں۔ عام آدمی یا گروہ ایسے خطرناک کاروبار میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا، جن کے کارندے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لیے شرم سار کھڑے نظر آتے ہیں۔ ایک لرزہ خیز خبر یہ بھی ہے کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے تمام امتحانات مشکوک ہوگئے ہیں۔ انسپکٹر اینٹی کرپشن کے لیے ٹاپ کرنے والے دونوں امیدواروں نے پرچے خریدے تھے، کمیشن کے اعلیٰ افسروں کے ملوث ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ ٹیسٹنگ کنسلٹنٹ کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ملزمان نے لیکچرار ایجوکیشن، کیمسٹری تحصیلدار، ڈپٹی اکائونٹس آفیسر، انسپکٹر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن سمیت 12 پرچے فروخت کرنے کا انکشاف کیا ہے۔
گروہ نے 12 امتحانات کے پیپرز لیک کرنے کا ریٹ 10 لاکھ سے 15 لاکھ رکھا۔ یہ پرچہ 8 افراد کو فروخت کیا۔ صحافت، کیمسٹری، ایجوکیشن سمیت متعدد مضامین کے لیکچررز کی اسامیوں کے لیے بھی پرچے فروخت کیے گئے۔ اینٹی کرپشن پنجاب نے پی پی ایس سی کے پیپر لیک اسکینڈل میں ایک اور ملزم کو گرفتار کرکے عدالت سے دو روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا۔ ملزم نے تحصیلدار کے پرچے کے لیے 6 امیدواروں کو بک کیا تھا۔ اینٹی کرپشن ذرائع کے مطابق ملزم ایجوکیشن کمیشن میں کنسلٹنٹ ٹیسٹنگ ہے، اس کی تنخواہ ساڑھے تین لاکھ روپے ہے۔ ملزم 2010ء سے 2017ء تک ریجنل ڈائریکٹر این ٹی ایس رہا۔ ایک ملزم کی وٹس ایپ چیٹ سے دوسرے ملزم کے ملوث ہونے کا ثبوت ملا۔ امیدواروں کو رشوت کے عوض بک کرنے کی ذمے داری ایک ملزم کی تھی۔ بک کیے گئے امیدواروں کو ایک ملزم، دوسرے ملزم کے حوالے کرتا تھا۔ اینٹی کرپشن میں انسپکٹرز کی اسامیوں کے لیے دونوں ٹاپرز بھی پرچہ خریدنے میں کامیاب ہوئے۔ انسپکٹر اینٹی کرپشن کی اسامی کے لیے دونوں ٹاپر بھی لیک پرچہ خریدنے والے امیدواروں میں شامل تھے۔ اینٹی کرپشن کے پرچے آئوٹ کرنے کے لیے امیدواروں سے فی کس مبینہ 5 لاکھ روپے رشوت لی گئی۔
پرچہ لیک ہونے کے اسکینڈل میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے اعلیٰ افسران کے ملوث ہونے کا بھی امکان ہے۔ ڈی جی اینٹی کرپشن کا کہنا ہے کہ معاملے کی تہہ تک پہنچیں گے۔ اسکینڈل کے تمام کرداروں کو جلد بے نقاب کریں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جن مچھلیوں نے تعلیمی تالاب کو گندا کردیا ہے وہ تو ہما رے بیورو کریٹس بابوئوں کی صورت میں پہلے سے ملک بھر میں پھیل چکی ہیں، مسئلہ چند تعلیم دشمنوں کا نہیں، یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ تحقیق اس بات پر ہونی چاہیے کہ جس ملک کے نظام تعلیم میں اتنے بڑے پیمانے پر سال ہا سال سے ڈکیتیاں پڑ رہی ہیں۔ ان گروہوں نے ایسا طبقہ پیدا کیا جن کے بچے ان ہی نقل و بوٹی مافیا اور پرچہ لیک کرنے والے کی خرد دشمنی کے باعث تعلیمی اداروں سے ڈگریاں لیتے رہے، وہ بھی جعلی اور ان اسناد کی بنیاد پر وہ ترقیاں پاتے ہوئے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے جبکہ غریب مگر اہل و ذہین طلبہ و طالبات میریٹ نہ ہونے اور اقربا پروری کی وجہ سے تقرر اور ترقی نہ پاسکے۔ تاہم کند ذہن، کام چور عناصر چور دروازے اور شارٹ کٹ تعلیم کی دیوار پھلانگ کر سرکاری ملازمتیں حاصل کرتے رہے۔ نتیجتاً گورنمنٹ کے کلیدی شعبوں پر فائز ہو کرنا لائق بابوئوں نے افسر شاہی کے وہ خواب پورے کرلیے جو مستحق اور اہل و غریب طالب علموں کے نصیب میں نہیں لکھے گئے تھے، اس چور دروازے کو اب بند ہونا چاہیے۔ یہ تعلیمی شعبے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
تو یہ ہیں وہ تلخ حقائق، جن کی بناء پر لگتا ہے کہ ہم سب پاکستانی اپنے ان بیورو کریٹس کے مزار ع ہیں۔ آج ضرورت ہے اپنے نوجوانوں کو جھنجوڑنے کی کہ اٹھو اپنی نسل کو غلامی سے نجات دلائو، قیامِ پاکستان کے مقصد کو پورا کرو اور نفاذِ اسلام کے لیے کوشش کرو۔ اس سلسلے میں وزیرِ اعظم سے بھی دستہ بستہ درخواست ہے کہ وزیرِ اعظم صاحب، بابو مکائو اور ملک بچائو۔