سندھ میں بلدیاتی الیکشن: تشدد، بدامنی، بدانتظامی سے معمور

516

سندھ کے 4 ڈویژن کے 14 اضلاع میں بلدیاتی الیکشن کا پہلا مرحلہ 26 جون کو گزر گیا، لیکن اس الیکشن میں جس بڑے پیمانے پر تشدد، بدامنی، دھاندلی، بدنظمی اور بدانتظامی کے مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں اس کی تلخ یادیں ایک عرصے تک یاد رکھی جائیں گی۔ پی پی ایک طویل عرصے سے صوبہ سندھ کے اقتدار پر ایک طرح سے بلاشرکت غیرے براجمان ہے۔ سندھ کے تمام تر وسائل اور وفاق سے چلنے والی ہر سال اربوں روپے پر مشتمل رقوم پر اس کا تصرف ہے لیکن صوبہ اور اہل صوبہ کی جو حالت زار ہے اس سے سبھی بہ خوبی آگاہ ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صوبہ سندھ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ملک کا ایک مثالی صوبہ ہوتا لیکن صورت حال اس کے یکسر برعکس ہے۔ اس امر سے پی پی کی قیادت بھی بہ خوبی آگاہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 26 جون کو منعقدہ بلدیاتی الیکشن میں اپنے ٹکٹ یافتہ امیدواروں کو بلامقابلہ جتوانے کے لیے ہر ممکن جتن کیے۔ اس کے لیے ہر جائز اور ناجائز حربے اپنائے گئے اور اس وجہ سے اس کے ہر ضلع میں متعدد ٹکٹ ہولڈرز کامیاب قرار پائے۔ جس پر مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے پی پی کے اس عمل کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا۔ پی پی کی قیادت نے ہمیشہ ہی جمہوریت اور جمہوری اقدار کی علم برداری کا راگ الاپا ہے لیکن 26 جون کو ہونے والے بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں حکومت سندھ نے اپنے امیدواروں کو کامیاب کرانے کے لیے جس بڑے پیمانے پر غیر قانونی طریقے سے حکومتی وسائل کا استعمال اور مخالف جماعتوں کے امیدواروں کے خلاف دھونس، دھاندلی، جبر اور زبردستی کے ہتھکنڈے اختیار کیے وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس کی نعرہ بازی اور عمل میں بہت بڑا تضاد ہے۔
یہ الیکشن بدانتظامی اور دھاندلی سے بھرپور تھے۔ یہ سارا سچ اب سوشل، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر بہت کچھ ظاہر ہوچکا ہے اور بتدریج مزید سامنے آتا جارہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق سندھ کے مختلف علاقوں میں پولنگ اسٹیشنوں پر انتخابی عمل کے دوران لڑائی جھگڑوں کے دوران 2 افراد جاں بحق اور تین سو سے زائد افراد شدید زخمی ہوئے۔ بہت سارے امیدواروںکو اغوا کرلیا گیا جس کی ذمے داری حکومتی پارٹی کے امیدواروں اور پولیس پر عائد کی گئی۔ متعدد مقامات پر پولنگ عملے کے ساتھ پی پی کے امیدواروں اور ان کے سپورٹرز نے بدتمیزی کی اور اسے زدوکوب تک کیا گیا۔ ضلع جیکب آباد، لاڑکانہ، کندھ کوٹ، سکھر، کشمور، خیرپور، مورو، پنو عاقل، مٹھی، ڈیپلو، چھاچھرو شاید ہی کوئی مقام ایسا تھا جہاں پر انتخابی عمل کے دوران دھاندلی، لڑائی جھگڑے، بدامنی، بدانتظامی اور دھاندلی کی اطلاعات سامنے نہ آئی ہوں۔ سکھر میں پی پی کے اہم اور مرکزی رہنما سید خورشید شاہ کے صاحب زادے زیرک شاہ نے پولنگ اسٹیشن پر انتخابی فرائض پر انجام دینے والی شائستہ کھوسو اور دیگر خواتین سے جس طرح بدتمیزی کی اس کی ویڈیو وائرل ہوچکی ہے۔ اسی طرح سے الیکشن کے روز اسلام کوٹ کی یونین کونسل ماجیٹی پر پی پی کے ایم پی اے فقیر شیر محمد بلالانی کے رشتے دار لیاقت منگورجو کو جتوانے کے لیے مقامی وڈیرے غلام محمد جونیجو نے پولیس کے سامنے حکم نہ ماننے پر جس بہیمانہ انداز میں پریزائیڈنگ آفیسر پولنگ نمبر 5 ڈاکٹر گھنشام داس پر تشدد کیا اور اس کے خلاف مغلظات بکیں۔ اس مکروہ عمل کی ویڈیو بھی وائرل ہوکر پی پی کی بلدیاتی الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیابی پر بہت سارے کھڑے ہونے والے سوالات اور اعتراضات میں ایک اور اعتراض اور سوال کا بدنما اضافہ کر گئی ہے۔
پی پی نے اس بلدیاتی انتخاب میں بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی ہے جب کہ جی ڈی اے، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جے یو آئی سمیت آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے ہیں لیکن یہ کامیابی دراصل ایک طرح سے برائے نام ہی ہے، کیوں کہ انہیں بہت کم نشستیں مل پائی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جی ڈی اے اور جے یو آئی نے بلدیاتی الیکشن میں مبینہ بڑے پیمانے پر روا رکھی گئی دھاندلی اور بدانتظامی کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ جے یو آئی ایک طرف تو وفاق میں پی پی کی اتحادی جماعت ہے لیکن دوسری جانب جے یو آئی صوبہ سندھ کے جنرل سیکرٹری مولانا راشد خالد محمود سومرو نے پی پی کے خلاف ’’زرداری بھگائو، سندھ بچائو‘‘ کا نعرہ بلند کرکے احتجاج کے میدان میں اترنے کا اعلان کیا ہے۔ اہل سندھ میں جے یو آئی کی یہ دوعملی اور متضاد رویہ ایک طرح سے جگ ہنسائی کا باعث بن گیا ہے۔ اس بلدیاتی الیکشن میں اس بات کا بھی بڑا شہرہ ہوا ہے کہ خیرپور کے ایک انتخابی حلقہ وارڈ نمبر 1 پی پی کے سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور ان کی صاحب زادی نفیسہ شاہ کے مشترکہ اور پسندیدہ امیدوار منٹھار شیخ کو ایک گدھا گاڑی بان گلشن شیخ کی صاحب زادی پروین شیخ نے بھاری مارجن کے ساتھ شکست فاش سے دوچار کیا ہے۔ اس انتخابی اپ سیٹ نے سندھ بھر میں بے حد شہرت حاصل کی ہے اور اس کا تذکرہ ہر زبان پر جاری ہے۔ اسی طرح سے پی پی کے ایسے کئی امیدواروں کو بھی شکست سے غیر متوقع طور پر ہمکنار ہونا پڑا ہے جو پہلے ناقابل شکست تصور کیے جارہے تھے۔ اس طرح کے چند انتخابی اپ سیٹ ضلع گھوٹکی میں بھی ہوئے ہیں۔ ضلع لاڑکانہ جو پی پی کا گڑھ ہے، وہاں بھی جی ڈی اے اور معظم عباسی کے کئی امیدواروں نے پی پی کے ٹکٹ یافتہ امیدواروں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔
بے انتہا وسائل خرچ کرنے، انتظامی سرکاری اور پولیس مشینری استعمال کرکے اور مقامی وڈیروں، بھوتاروں کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ مخالف امیدواروں اور ان کے رشتے داروں کو اغوا یا گرفتار کرکے اس الیکشن میں بھاری اکثریت سے اپنے امیدواروں کو کامیاب کروانے پر حکومت سندھ اور پی پی کی قیادت شدید تنقید اور الزامات کی زد میں ہے۔ اس بلدیاتی الیکشن میں الیکشن کمیشن نے بھی نااہلی، نالائقی اور بدانتظامی کی نئی مثالیں قائم کی ہیں۔ انتخابی فہرستوں میں اغلاط کی بھرمار تھی۔ پولنگ اسٹیشن بہت سارے ایسے مقامات پر تھے جہاں سہولتوں کا شدید فقدان تھا جس کی وجہ سے انتخابی عملے اور ووٹرز کو بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اس حوالے سے ہر جگہ سے بہ کثرت شکایات سامنے آئی ہیں بدانتظامی کے باعث اس بلدیاتی الیکشن سے متحدہ کی قیادت بھی ناراض ہوگئی ہے اور اس کی جانب سے اس سلسلے میں الیکشن کے آئندہ مرحلے کے لیے لائحہ عمل طے کرنے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اس بلدیاتی الیکشن میں ووٹرز کا مجموعی ٹرن آئوٹ 25 فی صد رہا ہے اور اگر 15 فی صد ووٹ بھی اس میں سے پی پی کے امیدواروں نے حاصل کیے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ 85 فی صد افراد نے پی پی حکومت کی کارکردگی پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ارزاہِ تفنن اور خوش طبعی کے طور پر سندھی زبان کے ایک معروف کالم نگار نے لکھا ہے کہ ’’یہ ایک ایسا بلدیاتی الیکشن تھا جس میں ووٹوں سے کہیں زیادہ لاٹھیاں اور گولیاں چلی ہیں۔ (مفہوم)۔
بہرکیف یہ بلدیاتی الیکشن اپنے پیچھے بہت ساری تلخ یادیں چھوڑ کر رخصت ہوا ہے اور یہ حقیقت بھی ایک بار پھر مترشح ہوئی ہے کہ ہمارے ملک کی حکومت میں باری باری رہنے والی معروف بڑی سیاسی جماعتیں کس طرح سے تضاد فکری اور تضاد بیانی کا شکار ہیں۔ جب یہ اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو انہیں جمہوری اقدار اور جمہوریت، جمہوریت کا راگ الاپنا بہت پسند ہے اور جب یہ برسراقتدار ہوں تو انتخاب میں کامیابی کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ اختیار کرنا ان کے لیے روا اور جائز ہوجایا کرتا ہے۔ 26 جون کو صوبہ سندھ میں منعقدہ بلدیاتی الیکشن کا پہلا مرحلہ اس کا ایک منہ بولتا ثبوت اور واضح مظہر ہے۔