اتمامِ حجت

428

وطن عزیز کے ادارے کچھ کریں یا نہ کریں مگر اتمام حجت کا اہتمام بڑی دلجمعی سے کرتے ہیں، برسر اقتدار پارٹی اپنی پیش رو حکومت کو تمام خرابیوں اور کوتاہیوں کا ذمے دار ٹھیراتی ہے، اپنی نا اہلی کو سابق حکومت کی نا اہلی ثابت کرنے کے لیے اپنی ذہنی صلاحیت اور قومی خزانے کو بڑی بے دردی سے ضائع کرتی ہے، حالانکہ وقت اور حالات کا تقاضا ہوتا ہے کہ اپنے پیش رو حکمرانوں کی غلطیاں دہرانے کے بجائے ان سے اجتناب برتا جائے مگر بد نصیبی یہی ہے کہ وہ ان غلطیوں کو دہرانے کی علت میں مبتلا رہتی ہے جس سے ملک غیر مستحکم اور قوم بدحال ہوتی رہتی ہے، یہ روش اور یہ رویہ تمام اداروں نے اپنایا ہوا ہے۔
عدلیہ انصاف کی عدم فراہمی اور تاخیر کا سبب جج صاحبان کی کمی کو قرار دیتی ہے مگر یہ سچ نہیں اصل مسئلہ کارکردگی کی کمی کا ہے اگر عدالتیں پیشی در پیشی کے شیطانی چکر میں نہ پڑیں تو عدالتوں میں مقدمات کا انبار ہو گا نہ سائلین ذہنی اذیت میں مبتلا ہوں گے یہ کیسی شرمناک صورتحال ہے کہ پیشی در پیشی کا چکر سائلین کو ذہنی مریض بنا دیتا ہے ان تمام مصائب اور مشکلات سے نجات پانے کے لیے ان نام نہاد حکمرانوں سے چھٹکارا ضروری ہے ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں ان کوتاہیوں اور خرابیوں کا ذمے دار قرار دیں گی، اس حقیقت کا ادراک قوم کے بچے بچے کو ہے کہ جب بھی وطن عزیز پر کوئی آفت آتی ہے کوئی مشکل پڑتی ہے تو اسلامی جماعتیں خاص کر جماعت اسلامی متاثرین کی مدد کے لیے سب سے آگے ہوتی ہیں جبکہ عوام ایسے لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو ان کو پولیس اور دیگر اداروں کی پکڑ سے محفوظ رکھیں۔ ان کے غیر قانونی کاموں میں معاونت کریں جبکہ جماعت اسلامی مجرم کو سزا دینے اور
بے گناہ کو چھوڑنے پر اصرار کرتی ہے جماعت اسلامی کا کوئی بھی ایم پی اے اور ایم این اے جب بھی کسی تھانیدار کو فون کرے گا تو کہے گا آپ نے فلاں شخص کو گرفتار کیا ہے اگر وہ بے گناہ ہے تو چھوڑ دو گناہ گار ہے تو اس کا چالان عدالت میں پیش کردو جواباً کہا جاتا ہے کہ جناب آپ فکر ہی نہ کریں۔ اگر وہ بے گناہ ہے تو آج ہی چھوڑ دیں گے، گنہگار ہے تو عدالت میں چالان پیش کردیا جائے گا یہ رویہ عوام کو پسند نہیں وہ مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی کے کسی ایم این اے یا ایم پی اے سے گزارش کرے گا تو وہاں سے حکم ہو گا کہ یہ میرا بندہ ہے اسے چھوڑ دو ورنہ… تمہیں اپنی سیٹ چھوڑنا پڑے گی، ظاہر ہے اس تناظر میں جماعت اسلامی کے امیدوار کو ووٹ دینا ایک دقت طلب مسئلہ بن جاتا ہے۔ مگر یہ معاملہ زیادہ عرصے تک نہیں چلے گا، عوام بے دار ہو رہے ہیں ان کے سیاسی شعور میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان کی سمجھ میں یہ بات آنے لگی ہے کہ غلط کام
کرنے والے کسی دوسرے کو غلط کام سے نہیں روک سکتے اور یہ دوسرے کون ہیں، عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکمرانوں کے سوا کوئی اور نہیں انہیں سدھارنے کے لیے عوام کو سدھرنا پڑے گا، جس دن عوام سدھر گئے کوئی غلط شخص ان پر مسلط نہیں ہو سکتا۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق ایک مدت سے قوم سے اپیل کررہے ہیں کہ جب تک اسلامی نظام نافذ نہیں کیا جاتا عوام بدحال ہوتے رہیں گے اور ملک اقتصادی طور پر کمزور ہوتا رہے گا، تحریک عدم اعتماد کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ عوام کو مہنگائی کے عفریت سے نجات دلائی جائے مگر اتحادی حکومت مہنگائی کے سرکش گھوڑے کو لگام نہ لگا سکی اب یہ حال ہے کہ مہنگائی پہلے سے بڑھ گئی ہے اور یومیہ اس میں اضافے در اضافے کا سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ان کا یہ کہنا ملکی حالات کا ترجمان ہے کہ پہلے معیشت بستر پر پڑی سسک رہی تھی اب جانکنی کی حالت میں ہے معیشت کو زندہ رکھنا ہے تو حکمرانوں کی خواہشات کے بے لگام گھوڑے کو لگام لگانا ہوگی، عوام پر بے پناہ لگائے گئے ٹیکسوں کو ختم کرنا ہوگا اور صاحب اختیار طبقہ کو دی جانے والی سہولتوں اور مراعات کو ختم کرنا ہوگا، عام آدمی اپنی قلیل تنخواہ میں گزر بسر کر سکتا ہے تو بیورو کریٹ اور ارکان اسمبلی کو درجنوں کاریں، بے حساب پٹرول، شاندار رہائش گاہیں اور ملازمین کی فوج دینے کی کیا ضرورت ہے اگر بنگلا دیش کی طرح ان کی مراعات اور دیگر مراعات پر پابندی لگا دی جائے تو جان کنی کی حالت میں پڑی معیشت میں جان پڑ سکتی ہے، عالمی سود خوروں سے نجات مل سکتی ہے مگر جب تک جمہوریت کے نام پر آمریت مسلط رہے گی تب تک ملکی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی نہیں ہو سکتی اور حکومتیں آئی ایم ایف کے سامنے سر نگوں ہوتی رہیں گی، خدا جانے حکمران طبقہ کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ سر بلندی کے لیے سرفراز ہونا پڑتا ہے اور کشکول بردار کوئی قوم باوقار نہیں ہو سکتی، بد نصیبی یہی ہے کہ وطن عزیز کے حکمرانوں نے قرض خوری کو اپنا سیاسی منشور اور نصب العین بنا لیا ہے جب تک یہ سوچ عین غین نہیں ہوتی سود خوروں کا غلبہ رہے گا حکمران کشکول پکڑے اور جھولی پھیلائے اقوام عالم کے سامنے سرنگوں رہیں گے۔
بارہا ہم نے شیخ رشید کے بارے میں کہا ہے کہ وہ چبائے ہوئے لقمے کھانے کے شوقین ہیں، یہ ٹھیک ہے کہ شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا مگر یہ بات بھی درست ہے کہ چبائے ہوئے لقموں سے غذئیت نہیں ملتی، چند روز قبل امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا تھا کہ ملکی معیشت وینٹی لیٹر میں پڑی ہے اور حکمران کھلی فضائوں میں سانس لے رہے ہیں اور اب شیخ رشید بھی فرمارہے ہیں کہ ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر پڑی ہوئی ہے، شیخ جی! معیشت کو تو آپ کی حکومت نے وینٹی لیٹر میں ڈالا ہوا تھا اور وینٹی لیٹر پر پڑا ہوا مریض کسی بھی وقت جانکنی کی حالت سے دوچار ہوسکتا ہے۔