مشورے نہیں عملی مظاہرہ

647

حبیب الرحمن
عمران دورِ حکومت سے شروع ہونے والا پند و نصح کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ ہر مرتبہ آندھی طوفان کی مانند بڑھتی چڑھتی مہنگائی کا علاج یہی بتایا گیا ہے کہ عوام اپنے اخراجات کی کاٹ چھانٹ کریں۔ عمران خان کے دور حکومت میں نامی گرامی وزرا و مشیران قوم کو یہی سمجھاتے رہے کہ چینی کا استعمال کم کیا جائے۔ اگر دن میں چینی کے 100 دانے استعمال ہوتے ہیں تو 9 دانے کم کر دیں۔ روٹی دو کھاتے ہیں تو کچھ عرصے ایک کھائیں اس طرح ہوگا یوں کہ آپ ہی کی بچت ہو گی اور آپ مہنگائی سے متاثر ہونے سے بچ جائیں گے۔ ہوتا یہی رہا ہے کہ جو روایت ایک مرتبہ پڑ جائے، پاکستان میں اس کا سلسلہ چل نکلتا ہے لہٰذا یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ پی ڈی ایم اس اچھی اور شستہ روایت کو جاری نہ رکھتی چنانچہ قوم کو مہنگائی کے ہاتھوں پریشان دیکھ کر اسی قسم کی نصیحتیںکرنا ان کا فرضِ اولین بنتا تھا سو چائے کی پیالیاں کم پینے کے مشورے جاری کیے جا رہے ہیں اور جواز یہ بتایا جا رہا ہے کہ چائے کی پیداوار کیونکہ پاکستان میں ہوتی ہی نہیں بلکہ اسے ڈالروں کے عوض درآمد کیا جاتا ہے اس لیے اس کے استعمال میں کمی سے ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بچت ہو سکتی ہے۔
ہماری قوم بھی عجب دماغ لیکر دنیا میں آئی ہے۔ عقل کی کوئی بات سمجھاؤ تو دماغ الٹا کر بیٹھ جاتی ہے۔ دور حکومت عمران خان کا تھا یا اب شہباز کرے پرواز گا، کیا ان کے وزرا اور مشیران یا خود حکمرانوں نے جو جو بھی مشورے عوام کو دیے وہ غلط تھے۔ کیا یہ بات غلط ہے کہ اگر ہر فرد اپنے ذاتی اخراجات میں کمی کرنے کے معاملے پر عمل کرنے لگے تو اس کے حالات میں کشادگی آ سکتی ہے۔ مگر مجال ہے کہ قوم کو یہ بات سمجھ میں آ جائے اور وہ حکمرانوں کی ہدایات پر عمل کرکے اپنی اور اپنے ملک کی خوش حالی میں اضافہ کر سکیں۔
ہمارے حکمران بھی بعض اوقات قوم کے ساتھ عجیب عجیب مذاق کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ چائے کیونکہ باہر سے درآمد کرنی پڑتی اس لیے ضروری ہے کہ اس کے استعمال میں کمی کرکے زرِ مبادلہ کی بچت کی جائے۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ آپ کے اپنے ملک میں بنتا ہی کیا ہے۔ یہ دو دو سو موٹر کاروں، ٹی پوں ٹی پوں کرتی پائلٹ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا قافلہ، جو آپ اور آپ کے وزرا و مشیران کا چلتا ہے کیا یہ سب مشینری پاکستان بناتا ہے۔ غریب سے غریب سوسائٹی میں کھڑی سیکڑوں بیش قیمت گاڑیاں کیا پاکستان میں تیار ہوتی ہیں۔ کیا ہوائی جہاز پاکستان بناتا ہے۔ پاکستان میں جتنی بھی مصنوعات تیار کی جاتی ہیں کیا ان مصنوعات کو تیار کرنے والی مشینری پاکستان کی اپنی ڈیزائن کردہ ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ وہ تمام اشیا جو خود پاکستان میں تیار کی جاتی ہیں یا اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے خزانوں سے حاصل کی جاتی اور جن پر کسی بھی قسم کا غیر ملکی زرِ مبادلہ خرچ نہیں ہوتا کیا وہ سب اشیا پاکستان میں ارزاں نرخوں پر فروخت کی جاتی ہیں۔ کیا چینی باہر سے آتی ہے، کیا چینی بنانے کے لیے گنا کسی غیر ملک سے خریدا جاتا ہے، کیا چاول اور گندم میں پاکستان خود کفیل نہیں، کیا زرعی آلات پاکستان خود تیار نہیں کرتا، کیا بجلی کے بے شمار آلات پاکستان از خود نہیں بناتا، کیا ہر قسم کا کپڑا پاکستان میں تیار نہیں کیا جاتا، کیا خشک میوے پاکستان میں پیدا نہیں ہوتے، کیا اعلیٰ قسم کے پھل پاکستان میں نہیں اگائے جاتے، یہاں تک کہ پاکستان اپنی بجلی تک خود بناتا ہے اور دنیا کے بے شمار ممالک سے کہیں گراں قیمت تیار کرتا ہے۔ ہر وہ شے جو پاکستان خود بناتا ہے یا اللہ کے عطا کردہ خزانوں سے حاصل کرتا ہے یا جن پر کسی قسم کا کوئی غیر ملکی زرِ مبادلہ خرچ نہیں ہوتا اس کی قیمتیں آسمان سے کیوں باتیں کرتی نظر آتی ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہر شے کی قیمت کا تعین پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں ہی سے کیوں کیا جاتا ہے۔
بے درد و بے حس حکمران جس قوم سے مسلسل قربانیاں دینے کا مطالبہ کرتے چلے آ رہے ہیں وہ دنیا کی ایسی بہترین قوم ہے جو انگریزوں کے ظلم و جہول کے دور سے لیکر تا دمِ تحریر قربانیاں در قربانیاں دیتی چلی آ رہی ہے لیکن المیہ یہ ہے قربانیاں طلب کرنے والے آج کے حکمران ماضی کے رہنماؤں کی طرح از خود کسی بھی قسم کی کوئی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں۔ اپنی تنخواہوں میں کٹوتی ان کو گوارہ نہیں، بیش بہا مراعات وہ نہیں چھوڑ سکتے۔ اپنی سرکاری و ذاتی رہائش گاہوں کو فروخت کرنا تو در کنار، اس کی تزئین و آرائش تک کو مؤخر نہیں کر سکتے۔ عام ہوائی جہازوں میں سفر وہ نہیں کر سکتے۔ کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیاں فروخت کرکے عام انسانوں والی موٹر کاروں میں وہ نہیں بیٹھ سکتے۔ اپنی بود و باش میں فرق وہ نہیں لا سکتے۔ سرکاری اخراجات پر حج و عمرہ کرنا ان کا معمول ہے۔ غیر ملکی و ملکی دوروں کے بعد ٹی اے ڈی اے لینا اپنا جدی پشتی حق سمجھتے ہیں اور قوم کی دولت کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر بغیر ڈکار لیے ہضم کرنا اس کے بہترین مشاغل میں شامل ہے لیکن کتنی اذیت کی بات ہے کہ وہ قوم کو دوپیالی چائے اور تین وقت کا پیٹ بھر کھانا کھاتے نہیں دیکھ سکتے۔
حکمرانوں کو علم ہونا چاہیے کہ قوم اپنے پیٹ پر ایک نہیں چار چار پتھر بھی باندھنے کے لیے تیار ہے لیکن وہ یہ سب کچھ شاید اس وقت تک کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتی جب تک ظالم حکمران کم از کم ایک آدھ روڑھا ہی سہی، اپنے پیٹوں پر باندھنے کے لیے تیار ہو جائیں۔