سچ یہ ہے! (آخری حصہ)

559

جہاں اسلام نے ضرورت کے وقت قرض لینے کا جواز رکھا ہے، وہاں صاحب ِ استطاعت مقروض کے قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کو ظلم سے تعبیر کیا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ’’سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: غنی کا (قرض کی ادائیگی میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کسی کا قرض کسی مال دار کے حوالے کیا جائے تو اس کو قبول کرنا چاہیے‘‘ (بخاری)۔ اسے فقہی اصطلاح میں ’’حوالہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ آج کل ہمارے ہاں غیر قانونی طریقے یعنی ہنڈی کے ذریعے پیسہ بھیجنے کو حوالہ کہا جاتا ہے۔ قرض کا جواز یا تو شدید ضرورت کے لیے ہوتا ہے یا حکومت کے لیے قرض کے جواز کی صورت یہ ہے کہ ایسے منصوبے بنائے جائیں کہ جن کی تکمیل کے بعد اتنی آمدنی ہو کہ اس سے قرض بھی ادا کیا جا سکے اور قومی و ملکی ضرورتوں کے لیے اضافی کمائی بھی ہو سکے۔ لیکن اگر ایکڑوں پر مشتمل ایوانِ صدر، ایوانِ وزیراعظم، ایوانِ عدل، وزرائے اعلیٰ، گورنروں اور دیگر عْمّالِ حکومت کے عالی شان محلات بنائے جائیں، تو اْن سے آمدنی تو کچھ نہیں ہوگی، لیکن اْن کی نگہداشت و مرمت پر مزید اخراجات آئیں گے اور ایسے عشرت کدے ہمارے وطنِ عزیز میں ہر بڑے شہر میں موجود ہیں۔ برطانیہ‘ جو ایک زمانے میں سپر پاور تھا، کے وزیر اعظم کا لندن میں 10 ڈائوننگ اسٹریٹ پر آج بھی تین بیڈ روم پر مشتمل مکان ہے اور آج بھی برطانیہ کا وزیراعظم فٹ پاتھ پر اپنے مہمان کا استقبال کرتا ہے۔ علامہ محمد اقبال نے کہا ہے:
افلاک سے آتا ہے، نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر، اٹھتے ہیں حجاب آخر
مے خانۂ یورپ کے، دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سْرور اول، دیتے ہیں شراب آخر
کیا دبدبۂ نادر، کیا شوکتِ تیموری
ہو جاتے ہیں سب دفتر، غرقِ مے ناب آخر
ترجمہ: ’’آخرِ کار آسمانوں سے فریاد کا جواب آتا ہے، سب حجاب بالآخر اٹھ جاتے ہیں اور حقیقت آشکار ہو جاتی ہے، یورپ کے میخانۂ (قرض) کے دستور بھی عجیب ہیں، پہلے اْس کا نشہ چڑھاتے ہیں، پھر اس کا عادی بناتے ہیں اور پھر آخرِکار سب (قرض) کے نشے میں غرق ہو جاتے ہیں اور ہر عہد کے نادر شاہ کا دبدبہ اور تیمور کی شوکت کافور ہو جاتی ہے‘‘۔ یہاں ہم نے ’’مے‘‘ (شراب) کو قرض سے تعبیر کیا ہے، کیونکہ ہمارے رہنمائوں پر یہی نشہ سوار ہے۔ ہمیں اگر قرض ملنے کا سلسلہ موقوف ہو جائے تو سارے نظام کے منہدم ہونے کا اندیشہ حقیقت بنتا ہوا نظر آتا ہے۔
یہاں ’’نادِر‘‘ اور ’’تیمور‘‘ کو بلا تفریق اپنے آج اور کل کے حکمرانوں سے استعارہ سمجھ لیجیے‘ شعر کا مفہوم سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ حزبِ اقتدار و اختلاف پر مشتمل آج کے حکمرانوں اور سیاسی رہنمائوں کی فکری معراج یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا کریڈٹ حاصل کرنے کا مقابلہ ہو رہا ہے، حالانکہ ابھی اس کی صرف بشارت سنائی گئی ہے‘ ابھی وائٹ لسٹ میں ڈالا نہیں گیا۔ اسی طرح آئی ایم ایف کے ’’باب القرض‘‘ کے وا ہونے پر بھی کریڈٹ لیا جائے گا۔ آئی ایم ایف نے انجامِ کار قرض کا دروازہ کھولنا ہی ہے، کیونکہ عالمی ساہوکار اپنے شکار کو مارنا نہیں چاہتے، تڑپتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں اور اپنے حضور جبیں سائی کرا کے لطف اٹھاتے ہیں۔ سب کے پیچھے امریکا اور اس کے اتحادی یعنی یہود و نصاریٰ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی خبردار فرما دیا تھا: ’’اور جب تک تم یہودو نصاریٰ کی ملّت کے پیروکار نہیں بنو گے، وہ تم سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے‘‘۔ (البقرہ: 120)
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اقتصادی مسائل تقریباً ناقابلِ حل ہوتے جا رہے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہو رہا ہے، پاکستانی روپے کی بے توقیری حد سے بڑھ رہی ہے اورکسی حد پر رک جانے کے آثار ابھی نظر نہیں آ رہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے کہا تھا:
ترے دریا کا کوئی، حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر، نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی، کہ مَدّ ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
مدّ و جزَر: سمندر کی موجوں کے اتار و چڑھائو کو کہتے ہیں۔ اسے انگریزی میں Tide کہتے ہیں‘ یعنی مسلمانوں کی عظمت کا سمندر جب سے زوال آشنا ہوا ہے، اْس کے جَزَر یعنی اْترنے کی کوئی حد نہیں ہے اور دوبارہ مدّ یعنی ابھار کے آثار بظاہر مفقود ہیں۔ سراج الحق نے کہا: ’’تین بڑی جماعتوں (پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی) نے ملک کو اس مقام تک پہنچایا ہے، صرف جماعت ِ اسلامی ہی اسے سنبھال سکتی ہے‘‘، اْن کے دعوے کے پہلے حصے کو تو ہم تسلیم کر لیتے ہیں، لیکن حضورِ والا! آپ اس وطنِ عزیز کو زوال سے نکال کر دوبارہ عروج کی طرف جو لے جائیں گے، اْس کے لیے روڈ میپ‘ خاکہ یا نقشہ آپ کے ذہن میں کیا ہے، ایک طالب علم کی حیثیت سے ہم روزانہ ممکن حد تک اخبارات کے تجزیے اور کالم پڑھتے ہیں، لیکن کوئی امید افزا حل آج تک کسی نے پیش نہیں کیا، تنقید سب سے آسان ہے اور ہم سب اس میں مشغول رہتے ہیں، زوال کے بعد عروج، تخریب کے بعد تعمیر اور ناکامی کے بعد کامیابی کا حقیقی اور قابلِ عمل فارمولا کسی کے پاس نہیں ہے۔
علامہ خادم حسین رضویؒ سادہ مزاج آدمی تھے۔ اْن سے پوچھا جاتا: ’’اگر آپ کو اقتدار ملے تو بین الاقوامی ساہوکاروں کے قرض کا بوجھ کیسے اتاریں گے‘‘ وہ سادہ سے الفاظ میں جواب دیتے: ’’ہم کہیں گے: سود ہمارے ہاں حرام ہے، لہٰذا ہم نے اصل زَر اور سود کی شکل میں آج تک جو پیسے دیے ہیں، انہیں جمع کر کے حساب کر لو اور اس کے بعد جو آپ کا قرض بچے گا، ہم دَین دارہیں، جب گنجائش ہوگی‘ ادا کر دیں گے‘‘، اسے آج کے دانا، فلسفی اور علم الاقتصاد کی مہارت پر ناز کرنے والے لوگ مجذوب کی بَڑ بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ پھر اْن کے پاس اس کے سوا اس مسئلے کا حل کیا ہے، مگر یہ حل بھی آسان نہیں ہے، اس کے لیے بھی ایک بار آپ کو دنیا سے کٹ کر اپنے وسائل پر جینا ہوگا، ہر طرح کی پابندیوں اور دبائو کا سامنا کرنا ہو گا، ناقابلِ تصور مشکلات سے گزرنا ہو گا، لیکن اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے: ’’بے شک تکلیف کے بعد آسانی ہے، بے شک تکلیف کے بعد آسانی ہے‘‘۔ (الشرح: 5 تا 6) عربی کے علم النحو کا قاعدہ ہے: ’’اسمِ معرفہ (Proper Noun) کو اگر مکرر لایا جائے تو ثانی الذکر سے پہلا ہی مراد ہوتا ہے اور اگر اسمِ نکِرہ (Common Noun) کو مکرر لایا جائے تو ثانی سے دوسرا مراد ہوتا ہے، تو مذکورہ آیت میں ”اَلعْسر‘‘ معرفہ ہے اور ’’یْسر‘‘ نکرہ ہے، یعنی عْسر ایک ہے تو ’’یْسر‘‘ دو ہیں۔ عربی شاعر نے کہا ہے:
اِذَ اشتَدَّت بِکَ البَلویٰ فَفَکِّر فِی اَلَم نَشرَح
فَعْسر بَینَ یْسرَینِ اِذَا فَکَّرتَہْ فَافرَح
ترجمہ: ’’جب تم پر مصیبت شدید ہو جائے تو (دل کی تسلی کے لیے) سورۂ ’’الم نشرح‘‘ میں غور کرو، (تم یہ پائو گے کہ) ایک تکلیف کے بعد دو آسانیاں ہیں اور جب تم اس سورت میں غور و فکر کر لو (اور اس حقیقت کو سمجھ لو) تو خوش ہو جائو‘‘۔ لیکن یہ خوشی اور نتائج انہیں نصیب ہو سکتے ہیں، جنہیں اسباب سے بڑھ کر ذاتِ مْسَبِّبْ الاَسباب پر یقین ہو۔ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں قدرت و عطا پر راسخ یقین ہو اور اْن کا ایمان ہو کہ اگرچہ یہ عالَمِ اسباب ہے، مگر اللہ تعالیٰ جب چاہے مافوقَ الاسباب بھی ہر مشکل سے نجات کی صورتیں مقدر فرما دیتا ہے، حدیث پاک میں ہے: ’’(مطلع بالکل صاف تھا کہ) ایک شخص نبی کریمؐ کے پاس آیا اور کہا: (قحطِ آب سے) مویشی ہلاک ہو گئے ہیں اور راستے منقطع ہو گئے ہیں (یعنی سفر کے قابل نہیں رہے)،
پھر آپؐ نے دعا فرمائی اور ایک جمعے سے دوسرے جمعے تک ہم پر مسلسل بارانِ رحمت نازل ہوتی رہی، (اگلے جمعے) پھر وہ شخص آیا اورعرض کی: (یا رسول اللہؐ!) (بارش کی کثرت سے) گھر منہدم ہوگئے ہیں، راستے منقطع ہو گئے ہیں اور مویشی ہلاک ہو گئے ہیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ اس بارش کو روک لے۔ نبی اکرمؐ کھڑے ہوئے اور دعا فرمائی: اے اللہ! (اس بارش کو) ٹیلوں پر، پہاڑیوں پر، وادیوں پر اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر نازل فرما۔ پس (آپؐ کی دعا کی برکت سے آناً فاناً مطلع صاف ہوگیا اور) بارش مدینہ سے اس طرح منقطع ہوگئی جیسے (پہننے والا) کپڑا اتار دیتا ہے‘‘۔ (بخاری)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’تو نوحؑ نے کہا: بے شک وہ بہت بخشنے والا ہے، وہ تم پر موسلا دھار بارش برسائے گا اور مالوں اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہارے لیے باغات (اْگائے گا) اور دریا بہائے گا‘‘، (نوح: 10 تا 11) ’’اور وہی ہے جو اپنی رحمت (کی بارش)کے آگے آگے خوش خبری دینے والی ہوائوں کو بھیجتا ہے، حتیٰ کہ جب وہ ہوائیں (پانی سے لدے ہوئے) بھاری بادل کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم اس کو کسی بنجر زمین کی طرف چلاد یتے ہیں، پھر ہم اس سے پانی نازل کرتے ہیں، پھر ہم اس پانی سے ہر قسم کے پھل اُگاتے ہیں‘‘، (الاعراف: 57) ’’اللہ ہی ہے جو ہوائوں کو بھیجتا ہے تو وہ بادل کو اٹھاتی ہیں، پھر اس بادل کو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور وہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے، تم دیکھتے ہو کہ اس کے درمیان سے پانی نکلتا ہے، پھر وہ اپنے بندوں میں سے جن کے لیے چاہتا ہے، اْن تک وہ پانی پہنچا دیتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں‘‘، (الروم: 48) ’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ بادلوں کو چلاتا ہے، پھر ان کو (باہم) جوڑ دیتا ہے، پھر ان کو تہہ بہ تہہ کر دیتا ہے، پھر آپ دیکھتے ہیں کہ ان کے درمیان سے (رحمت کی) بارش ہوتی ہے اور اللہ آسمان سے پہاڑوں (کی مانند جمع شدہ بادلوں) سے اولے نازل فرماتا ہے، سو وہ جس پر چاہے ان اولوں کو برسا دیتا ہے اور جس سے چاہے ان کو پھیر دیتا ہے‘‘۔ (النور: 43)
اب بھی آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، اسلامک ڈویلپمنٹ، چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے ممکنہ امداد کے علاوہ صکوک بانڈ جاری کیے جانے کا پروگرام ہے، لیکن یہ صکوک بانڈ کسی نئے ڈیم یا صنعتی منصوبے کے لیے نہیں ہوں گے، جس سے کوئی معاشی سرگرمی پیدا ہو، روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور برآمدات میں اضافہ ہو، بلکہ یہ ریاست کی ملکیت میں پہلے سے موجود اثاثوں کے مقابل جاری ہوں گے، یعنی ان بانڈز سے ہونے والی زرِ مبادلہ کی آمدنی سے کوئی نئی معاشی سرگرمی شروع نہیں ہو گی، بلکہ یہ بھی قرض کی ایک بالواسطہ صورت ہے، بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کا مقصد بھی زرِ مبادلہ کا حصول ہے۔ دعا ہے: اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور اقتصادی مشکلات اور معاشی غلامی سے نکلنے کی کوئی راہ اپنی قدرت سے مقدر فرمائے۔