شرح صدر

581

آزادی حاصل کیے عشرے بیت گئے ہیں مگر وطن عزیز میں آج بھی روٹی، کپڑا، مکان شہریوں کی ضرورت ہے اور کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت کا تاثر دیے بغیر یہی نعرہ آج بھی عام آدمی کی ضرورت بنا ہوا ہے، یہ نعرہ اپنے اندر فیض کافی رکھتا ہے جس نے لگایا ہے وہ امیر سے امیر ہوا ہے اور جس کے لیے لگایا گیا ہے ان کی حالت زار آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، ان کی فریادوں کے سبھی عینی شاہد ہیں۔ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ یہ دنیا اپنے لیے جہاں نئی منزلیں تلاش کر رہی ہیں اسی دنیا میں ہم پاکستانی بنیادی خوراک کے حصول کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ملک کے عام آدمی کو اس نہج پر پہنچانے کا ذمے دار کون ہے؟ آج یہ سوال سبھی کی زبان پر ہے مگر کیا کس سے جائے اور جواب کون دے گا؟ ہمارے ملک میں جتنے تجربے حکومتوں کو لانے، گرانے، نئے نئے نظام متعارف کروانے کے لیے کیے گئے ان سب تجربات پر کوئی صدق دل سے یہ کہہ سکتا ہے کہ کوئی ایک تجربہ بھی اس نیت سے کیا ہو کہ اس سے عوام کی بہبود اور ان کی فلاح مقصود ہے؟ اگر حسن ظن رکھتے ہوئے یہ تسلیم کرلیا جائے کہ صاحب ِ اختیار کی نیت عوام کی بھلائی ہی تھی تو پھر اس نیت کا عمل اور اس کے اثرات ہمیں ایک فی صد بھی کیوں نہ نظر آرہے؟
آپ گزشتہ گزرے ایام کے اخبارات میں شائع سرخیاں پڑھ لیں کبھی چینی کا بحران، کبھی آٹا بحران اور کبھی ذخیرہ اندوزی کے مسائل، یہی مسائل ہیں اور ان ہی کی نشاندہی ملتی ہے اور یہ سلسلہ متواتر چلا آرہا ہے۔ زیادہ دور کی بات نہیں تازہ اخبار ہی دیکھ لیں، حکومت کی جانب سے یہی بات ملے گی، کہ ہم سستا آٹے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، ملک کو نادھندہ ہونے سے بچانا ہے لہٰذا مشکل فیصلے کرنا ہوںگے، سوال یہ ہے کہ آخر مشکل فیصلوں کی زد میں عوام ہی کیوں آتے ہیں؟ کیوں بروقت اقدامات نہیں کیے گئے؟ ملک کی آبادی اگر بڑھتی گئی تو اسے بہتر سماجی ماحول دینے کے لیے وسائل کیوں نہیں بڑھائے گئے؟ نئے شہروں کی تعمیر کیوں ترجیحات نہ رہیں؟ ہم تو اناج میں خود کفیل تھے یہ اعزاز برقرار کیوں نہ رکھ سکے؟ یہ بنیادی اقدامات تھے مگر اس مسائل کے حل کے لیے وسائل کا بہتر استعمال کیسے کیا جائے اس کتاب کو کھولا ہی نہیں گیا۔ ستم ظریفی تو یہ دیکھیے کہ کوئی ان سب کی ذمے داری لینے کو بھی تیار نہیں، کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے، خواجہ آصف پتا نہیں کیوں یاد آگئے۔
بجٹ پارلیمنٹ میں پیش ہوا، اس پر بحث ہوئی، اور فنانس بل اب منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا مگر جس پر بجٹ کا سارا انحصار ہے پاکستان کا مالیاتی ادارے کے ساتھ پروگرام بحال نہیں ہوا، ہمارے وزیر اعظم کہتے ہیں مالیاتی ادارے کی جانب سے مزید شرائط نہ رکھی گئیں تو جلد پروگرام بحال ہوجائے گا۔ اندازہ کیجیے اس ملک کے حکمرانوں کے لیے قرض کا حصول جس پر پشیمان ہونا چاہیے مگر یہ عمل اب خوشخبری بن چکا ہے۔ آج بھی تمام تر توانائیاں اس پر صرف کی جارہی ہیں کہ مالیاتی ادارے کے کون کون سے مطالبات تسلیم کیے جائیں کہ قرضہ مل جائے۔ شاید کوئی دوست یہ رہنمائی کردے کہ ملک کی کسی اہم بیٹھک میں کسی بھی سطح پر یہ معاملہ زیر غور ہو کہ ملک کو پانچ سے دس سال میں ایسی کون سی سمت میں ڈال دیں جس سے ہم کسی مالیاتی ادارے پر انحصار ہی نہ کریں۔ بندہ خاکسار کے علم میں تو کوئی ایسی بیٹھک نہیں اور نہ ہی کوئی چڑیا ہے جس سے اندر کی کہانی معلوم ہوسکے۔ ملک کی صورتحال دیکھ کر یہی لگتا ہے ہمیں اب قرض لینے کی اپنی اس بیماری ہی سے پیار ہوگیا ہے اور تندرستی ہمیں بیماری لگتی ہے۔ پھر دہراتا ہوں سوال، اس نہج پر ملک کو لانے کا ذمے دار کون؟ ریاست؟ مگر ریاست تو ماں جیسی ہوتی ہے نا، تو پھر ماں سے سوال کر کے گستاخ ہوجائوں؟ جو بھی گستاخ ہوا اس کا نتیجہ لاپتا ہونا ہے مگر میں اپنا جمہوری حق اور احتیاط واجب کی بنا پر پہلے والے انتخاب کردہ الفاظ گستاخ پر ہی اکتفا کروں گا۔