اندھا دھند

647

پنڈی والے شیخ رشید کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کرپٹ سیاست دانوں کو کبھی سزا نہیں ہوسکتی سزائیں صرف غریبوں کا مقدر ہیں چور اور چوکیدار یکجان ہو جائیں تو کسی کی جان سلامت نہیں رہتی اب معاملات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ عوام آسمان کو ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے ہیں اور آسمان والے سے امداد طلب کررہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو آسمان سے امداد نازل ہوتی ہے ان کا یہ کہنا ہے کہ نیب قوانین میں ترامیم کے بارے میں جو تقریر عمران خان نے کی ہے وہ پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے، بلے کو دودھ کی رکھوالی پر بٹھا دیا جائے تو دودھ محفوظ نہیں رہتا، چور کو چوکیدار بنا دیا گیا ہے نیب میں ترامیم کر کے اپنی مرضی کے قوانین بنائے جارہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چار برسوں میں موصوف کی حکومت اور نیب کیا کرتے رہے، سوائے چور، ڈاکو اور لٹیرے کی دھن پر ناچنے کے، گزشتہ دنوں احتساب عدالت میں شاہد خاقان عباسی کی پیشی تھی، پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیب نے الزامات تو بہت لگائے ہیں مگر کچھ ثابت نہ کر سکی انہوں نے صدر مملکت سے گزارش کی ہے کہ نیب کا ریکارڈ منگوا کر دیکھ لیں، نیب کسی بھی نامزد ملزم پر لگائے گئے الزامات ثابت نہیں کر سکی گویا نیب کے نام نہاد ملزمان پر عدالت کوئی بھی فیصلہ نہ کر سکی کیونکہ وہ عدالتوں میں بے گناہ ثابت ہوتے رہے ہیں، جاوید اقبال کو بلا کر استفسار کرے کہ چار برسوں میں کتنے نامزد ملزمان پر جرم ثابت کیا ہے، تحریک انصاف کی حکومت چار برس تک انہیں مجرم ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر کسی کو عدالتوں سے سزا نہ دلوا سکی اس پس منظر میں ان کا یہ کہنا بڑی حد تک درست ہے کہ نیب اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے، نیب مخالفین پر مقدمات بنانے اور انہیں رسوا کرنے کا ادارہ بن چکا ہے صدر مملکت بتائیں کہ تحریک انصاف کی حکومت میں نیب سے متعلق ہر قانون پر دستخط کرتے رہے ہیں مگر ہمارے دور میں ہر قانون مسترد کرتے رہے ہیں اور جواب یہ دیا جارہا ہے کہ ان کا ضمیر بیدار ہو گیا ہے، حکومت کیا بدلی کہ اب ان کا ضمیر ہی بدل گیا ہے، شاہد خاقان نے عوام کو یہ نوید سنائی ہے کہ لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے اور اس کوشش میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں، لوڈ شیڈنگ کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے البتہ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ بجلی کے نرخ میں جو اضافہ کیا گیا ہے۔ اس میں سبسڈی دے کر عوام کو ریلیف دیا جارہا ہے ہمارے سامنے مئی اور جون کے بل پڑے ہیں مئی کا بل937روپے کا ہے اس میں 415روپے کی رعایت دی گئی ہے اور جون کا بل جو 1984 ہے اس میں 730روپے کی رعایت دی گئی ہے۔
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ بنی گالا میں غیر قانونی توسیع اور دیگر ایسے معاملات میں دستخط کرتے وقت صدر مملکت کا ضمیر کیوں سو گیا تھا، تحریک انصاف جو بھی بل پیش کرتی صدر مملکت فوری طور پر دستخط فرمادیا کرتے تھے جیسے موصوف ہاتھ میں قلم پکڑے دستخط کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے تھے اگر واقعی صدر مملکت کا ضمیر جاگ پڑا ہے تو اسے پڑا نہ رہنے دیں بلکہ اپنے ارکان اسمبلی سے کہیں کہ مستعفی ہونے کے بعد تنخواہیں اور دیگر مراعات لینا بددیانتی ہے، قومی خزانے پر شیش ناگ کی طرح قبضہ جمانے کے مترادف ہے، سو، تنخواہوں اور مراعات سے دستبردار ہو کر دیانتداری کا ثبوت دیں کہ قومی خزانے پر بوجھ بننا حب الوطنی نہیں، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس معاملے میں صدر مملکت کا ضمیر کیوں سویا ہوا ہے شاید اونگھنا ان کی عادت ہے اور اونگھنے کے رد عمل میں پلک کا جھپک جانا ایک لازمی امر ہے۔
شیخ جی فرماتے ہیں سازش کے زور پر مسلط ہونے والی حکومت نے نیب کے دانت نکال دیے ہیں، وہ جانتی ہے کہ پوپلے تو لقمہ نہیں چبا سکتے کاٹنے کی صلاحیت سے محروم ہونے والوں سے کون ڈرتا ہے، مگر عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ دانت نکالنے کے ماہر تو تحریک انصاف کے صدر مملکت ہیں، اب یہ اور بات ہے کہ محترم نے ایوان صدر ہی کو ڈینٹل کلینک بنا لیا ہے کیونکہ یہاں عام مریضوں کا داخلہ ممنوع ہے لہٰذا وہ قانون کے دانت نکال رہے ہیں، نیب کے قوانین میں ترامیم ہونے پر واویلا کرنے کے بجائے، یہ سوچنا ضروری ہے کہ نیب جو اندھا دھند گرفتاریاں کررہی ہے اس کا کیا جواز ہے وہ کسی بھی شخص کو زیر حراست لے کر یہ استفسار کرتی ہے کہ تم نے کون کون سا جرم کیا ہے بارہا عدالیہ نے نیب کو ہدایت کی ہے کہ ثبوت کے بغیر گرفتار کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے، مگر جہاں قانون نہ ہو وہاں قانون کی خلاف ورزی کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے البتہ نیب کے زیر حراست ملزمان پر قیامت ضرور گزر جاتی ہے۔
پولیس میں بھرتی کے امیدواروں میں ایک اندھا بھی کھڑا تھا اسے دیکھ کر کسی نے سوال کیا کہ تم پولیس میں بھرتی ہوکر کیا کرو گے اندھے نے جواب دیا اندھا دھند فائرنگ میں میرا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اور پولیس کو اندھا دھند فائرنگ کرنے والوں کی اشد ضرورت ہے، اندھا تو پولیس میں بھرتی نہ ہو سکا مگر نیب میں ایسے لوگوںکو بھرتی کر لیا گیا ہے جو اندھا دھند گرفتاریوں کے ماہر ہیں۔