وزیر ِاعظم صا حب مشکل فیصلے کریں

401

کچھ بھی کہہ لیجیے، یہ حقیقت ہے کہ افراطِ زر ملک کو سری لنکا کے راستے پر لے جا رہا ہے۔ چنانچہ صف اول کی سیاسی قیادت کے لیے ضروری نہیں کہ وہ انہی خدشات کو دہراتی چلی جائے قومی قیادت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان مسائل کا حل تجویز کرے۔ مرض کی تشخیص علاج کے لیے ضروری سہی مگر صرف تشخیص بیماری سے جان چھڑانے کے لیے کافی نہیں۔ اس بحرانی صورتحال کا علاج احتجاجی سیاست بھی نہیں۔ ان حالات میں جب معاشی بحران سنگین صورت اختیار کر چکا ہے عوام کو اکسانے کا ایک ہی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ وطن عزیز جس بحران میں پھنسا ہوا ہے اس کی شدت میں کچھ اور اضافہ ہو اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد جو پہلے ہی کافی حد تک مجروح ہے یہ ہنگامہ خیزی اس پر مزید کاری ضرب لگائے اور حکومت کی گرفت اگرکمزور ہو تو عالمی قرض دہندگان بھی سوچ میں پڑ جائیں اور جو کوئی پاکستان کو کچھ قرض دینے کا ذہن بنا چکا ہے وہ بھی اس پر نظر ثانی پر مجبور ہو جائے۔ ایسے حالات میں مایوسی بد دلی انتشار اور معاشی بدحالی میں اضافہ نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں؛ چنانچہ سیاسی قیادت کی بنیادی ذمے داری ہے کہ اس صورتحال کی سنگینی بڑھانے کے بجائے جہاں تک ممکن ہو اسے کم کرنے کی کوشش کرے۔ یہ حالات سیاست سے بالاتر ہو کر سوچنے اور کام کرنے کے ہیں۔ سیاست عہدے اور سیاسی منشور سب کچھ خوشحال اور بہتر پاکستان کے نصب العین کے ساتھ منسلک ہونا چاہیے۔
سری لنکا کے حالات کے جتنے حوالے پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران ہمارے سیاسی رہنماؤں نے دیے اس خطے کے کسی دوسرے ملک میں اس سے آدھے بھی نہ ہوںگے مگر دیکھنا یہ ہے کہ ہماری قیادت نے اس عبرتناک صورتحال سے سیکھا کیا ہے؟ کیا سری لنکا کا معاشی بحران صرف اس لیے ہے کہ پاکستانی سیاسی قیادت اس کو اپنے ملک کے معاشی حالات کا ذکر کرنے کے لیے بطور حوالہ استعمال کرے؟ کیا سری لنکا صرف تشویش کے اظہار کا ایک استعارہ ہے؟ کیا ان حالات میں ہمارے سیکھنے کے لیے کچھ بھی نہیں؟ اگر ہماری سیاسی قیادت جو اُٹھتے بیٹھتے سری لنکا کے حالات کی مثالیں دے رہی ہے اور اس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں شامل ہیں ان حالات سے کوئی سبق حاصل کرنے کے لیے تیار نظر آتی، تو اس بحران کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حالات و واقعات محض قصے کہانیاں نہیں ہوتے کہ ان کے ذکر سے بات میں وزن پیدا کیا جائے دانش مندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ آپ ایسے واقعات سے سیکھیں اور اپنے آپ کو بہتر بنانے میں ان سے رہنمائی حاصل کریں۔ مگر ہماری سیاسی قیادت کی نظر میں سری لنکا کا معاشی بحران صرف ایک واقعے کی حد تک رہ گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معیشتیں کبھی بھی راتوں رات یا چند ہفتوں مہینوں کے فیصلوں کے بوجھ سے نہیں بیٹھتیں۔ یہ دہائیوں کی غیر حقیقی منصوبہ بندی سوچ اور عمل کا نتیجہ ہوتی ہے یہی سری لنکا کے ساتھ ہوا ہے اور اسی طرح وطن عزیز میں ہوتا چلا آرہا ہے۔
معاشی وسائل کا مضبوط ڈھانچہ بنانے کے بجائے عبوری حربوں سے وقت کو دھکیلنے کی پالیسی ہمارے ہاں خرابی کی جڑ ہے۔ مہنگے قرضوں کو غیر پیداواری مقاصد میں ضائع کرنا ہمارے حکمرانوں کی پرانی عادت ہے۔ اس طرح ملک میں بے مقصد ترقیاتی منصوبوں کا بے ہنگم جال نظر آتا ہے جو عوام کے کسی مفید مقصد میں کام نہیں آ رہے۔ ایسے اکثر منصوبے بدعنوانی کی لمبی سرنگ ثابت ہوئے ہیں۔ یہاں کفایت شعاری کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر رہی۔ ہر چند سال بعد بچت کا جوش ضرور ابھرا مگر یہ جذباتی اقدام کبھی بھی ہمارے سیاسی اور حکومتی مزاج کا پائیدار حصہ نہیں بن سکا۔ ملکی پیداوار کی جانب توجہ دینے اور اخراجات میں احتیاط اور بچت کے رجحان کو فروغ دینے کے بجائے فضول خرچی ہمارا شعار رہی ہے۔ ایک ایسا ملک جو بجا طور پر زرعی معیشت کہلاتا ہے خوراک کی درآمدات پر سالانہ سات ارب ڈالر کے قریب خرچ کرتا آ رہا ہے اور ہر سال ان اخراجات میں قریب پچاس فی صد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ غیر معمولی تجارتی خسارے میں خوراک کی سال بہ سال بڑھتی درآمدات کا بڑا اہم کردار ہے۔ بڑھتی ہوئی خوراک کی درآمدات ملکی سطح پر ان اشیا کی پیداوار میں گراوٹ کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔ ٹیکس محصولات کی ضرورت و اہمیت محتاج بیان نہیں مگر ہمارے ہاں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 11فی صد سے بھی کم ہے۔ ہر آنے والی حکومت ٹیکس گزاروں کی تعداد بڑھانے کا عزم ظاہر کرتی ہے مگر اس سلسلے میں پیش رفت ناکافی رہی ہے اور ٹیکسوں کا زیادہ بوجھ بالواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں عوام پر پڑتا ہے۔
سری لنکا کے معاشی بحران کو دیکھیں تو اس کی بنیادی وجوہ میں اس کا غیر ملکی تجارتی خسارہ اور صدر راجا پاکسے کی جانب سے غیر منطقی ٹیکس کٹوتی کا بڑا کردار ہے۔ سری لنکا کی درآمدات کی لاگت اپنی برآمدات سے تین ارب ڈالر زیادہ ہے یہیں سے اس ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کے خاتمے کی ابتدا ہوئی۔ درآمدات اور برآمدات کے عدم توازن کو دیکھیں تو وطن عزیز بھی اسی را ہ پر ہے جس پر چلنے والوں کے قومی خزانے بھر نہیں سکتے۔ مگر کیا صرف یہی بیان کردینا کافی ہے؟ کیا کچھ چیختے معنوں والی سطریں ان مسائل کا حل ثابت ہو سکتی ہیں جو معیشت کو چاٹ رہے ہیں؟ الزام تراشیوں سے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا اہل سیاست کو الزام تراشیوں سے نکل کر حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے۔ چنا نچہ ہما رے وزیرِ اعظم کے لیے اب مشکل فیصلے کرنا نا گزیر ہوچکا ہے۔ اور جناب وزیر اعظم میاں شہباز شریف صاحب مشکل فیصلے یہ ہیں:
پاکستان میں کسی کو ایک لیٹر بھی مفت پٹرول نہیں ملے گا اور نہ ایک یونٹ مفت بجلی یا مفت گیس کوئی استعمال کر سکے گا یہ اعلان کریں تو یہ ہے مشکل فیصلہ۔ پچھلے 30 سال میں ہر کسی کو ملا ہر سرکاری پلاٹ واپس لیں گے تو یہ ہے مشکل فیصلہ۔ غلط فیصلے والے حکمرانوں کی جائدادیں نیلام ہوں گی تو یہ ہے مشکل فیصلہ۔ پاکستان کے تمام سرکاری دفاتر اور سرکاری رہائش گاہوں سے اے سی اتار لیے جائیں تاکہ بجلی کی بچت ہو۔ سب سے پہلے پارلیمنٹ ہاؤس، قومی اسمبلی اور سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں اور ان کے ارکان کی سرکاری رہائش گاہوں سمیت تمام وزراء کے سرکاری دفاتر سے اور سرکاری رہائش گاہوں سے اے سی اتارے جائیں، تمام سرکاری گاڑیوں کے پرائیویٹ استعمال پر پابندی لگائے یہ ہیں مشکل فیصلے۔ پچھلے 30سال سے معاف کروائے گئے تمام افراد سے قرضے واپس لیے جائیں۔ یہ ہیں مشکل فیصلے۔ البتہ نالائقی کا سارا بوجھ عوام پر ڈالنا، پٹرول مہنگا کرنا، بجلی گیس مہنگی کرنا کھانے پینے کی اشیاء مہنگا کرنا، ہر چیز پر ٹیکس بڑھاتے جانا، یہ تو سب سے آسان فیصلے ہیں جو کیے جا رہے ہیں۔