مشکل فیصلوں کی مشکل کشائی کون کرے گا

453

ایک زمانہ ایسا بھی تھا اور اب بھی کہیں کہیں کسی خاندان میں یہ روایت ہے کہ خواتین اپنے شوہروں کے نام نہیں لیتیں، لطیفے ٹائپ کا ایک فرضی قصہ خاندان کی بڑی بوڑھیاں بچوں کو سنایا کرتی تھیں کہ ایک عورت کے شوہر کا نام رحمت اللہ تھا، وہ جب نماز پڑھتی تو سلام پھیرتے وقت وہ شوہر کا نام نہیں لیتی بلکہ اس طرح کہتی کہ السلام علیکم زرینہ کے ابا اور دوسری طرف السلام علیکم ثمینہ کے ابا۔ ہمارے حکمرانوں کی بھی کیمسٹری کچھ اسی طرح کی ہے کہ ایک زمانے میں جب کسی چیز کی یا پٹرول ہی کی لے لیں قیمتیں بڑھانے کی بات ہوتی تو صاف انداز میں یہ نہیں کہتے کہ فلاں تاریخ سے اس چیز یا پٹرول کی نرخ میں اضافہ کیا جارہا ہے بلکہ اس کے بدلے یہ کہا جاتا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے فلاں تاریخ سے پٹرول کی قیمتوں میں ردبدل کیا جارہا ہے، ملک میں ہونے والی مہنگائی کو قیمتوں میں رد وبدل کا نام دیا جاتا حکمران دراصل عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں یا اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں۔ اسی طرح آج کل پٹرول یا کسی بھی چیز کی قیمتوں میں اضافے کو مشکل فیصلوں کا نام دیا جاتا ہے۔
حکومت کی طرف سے جب یہ بات آتی ہے کہ پٹرول کے حوالے سے ہمیں کچھ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے تو عوام چوکنا ہوجاتے ہیں کہ پٹرول کے نرخ پھر بڑھنے والے ہیں پھر ایک خاص منصوبے کے تحت پبلک میں یہ بحث و مباحثہ کروایا جاتا کہ اب یہ تین سو روپے لیٹر تک جائے گا دوسرے صاحب کہتے کہ نہیں بھائی آئی ایم ایف نے 360 روپے لیٹر کے بارے میں حکومت پاکستان کو پابند کیا ایسا معلوم ہوتا کہ وہ صاحب براہ راست آئی ایم ایف سے اطلاع لے کر آئیں ہیں ویسے بھی اتنا کچھ کرنے کے بعد یعنی 85روپے فی لیٹر بڑھانے کے بعد بھی آئی ایم ایف نے معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ 30 روپے لیوی کے اور 17فی صد سیلز ٹیکس بڑھائے جائیں یعنی 60 روپے فی لیٹر تک بڑھانے کا مطالبہ ہے جبکہ ہمارے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل قوم کو یہی تسلی دے رہے ہیں کہ بس ایک دو روز میں آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے والا ہے۔ اس طرح کے اعدادو شمار میں عام لوگوں کو الجھا کر ہر مہینے کی 15اور 30 تاریخ کی شام کو پچیس تیس روپے فی لیٹر کا اضافہ کردیا جائے گا لیکن اس سے بھی بات بنتی نظر نہیں آتی۔ دوسری طرف اس کے نتیجے میں دکاندار اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھاتے رہتے ہیں کوئی ان کو روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے مثلاً چائے ہی کو لے لیں جو لوگ ہوٹل میں چائے پینے جاتے ہیں تو اپنے بچپن کی بات تو نہیں کرتے جب چار آنے کی چائے ملا کرتی تھی ابھی تین چار سال پہلے تک گلی محلوں کے عام ہوٹلوں میں فل کپ چائے 30روپے کی اور ہاف کپ یعنی اس کی آدھی جسے ہوٹل کی زبان میں کٹ چائے کہتے 15روپے کی ملتی تھی اب فل کپ چائے 80روپے کی اور ہاف کپ جسے کٹ چائے کہتے ہیں 40روپے کی ہوگئی ہے۔
ملک میں جب بھی مہنگائی ہوتی ہے تو اس سے کاروباری لوگوں کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے، دہاڑی دار، روزآنہ کمانے والے اور تنخواہ دار ملازمین اس مہنگائی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں حکومت ان کی اشک شوئی کے لیے بجٹ میں کچھ اضافے کا اعلان کرتی ہے لیکن یہ اعلان اس تناسب سے بہت کم ہوتا ہے ایسے خاندان بسا اوقات فاقہ کشی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایک ایسی خاندان کی بات میرے علم میں آئی کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ دو وقت کھانا کھائیں گے یعنی صبح ناشتہ اور رات کا کھانا، رات کے کھانے میں سے جو تھوڑا بہت بچے گا وہ دوپہر میں جب بچے اسکول سے آئیں گے تو انہیں دے دیا جائے گا اگر گنجائش ہوئی تو خود بھی دوچار نوالے کھالیں گے۔ اسی طرح ہر گھر میں دو وقت چائے بنائی جاتی تھی مہمان وغیرہ آگئے تو الگ سے چائے بنائی جاتی کئی گھرانوں میں اب صرف صبح کی چائے بنتی ہے شام کی چائے ختم کردی گئی ویسے بھی ہمارے وزیر احسن اقبال نے قوم سے گزارش کی ہے کہ لوگ چائے کم پیا کریں۔
یہ تو وہ اقدامات ہیں جو لوگ ازخود کررہے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اس مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے خود کیا اقدامات اٹھا رہی ہے ہمارے یہاں گریڈ 19سے 22 تک کے ملازمین کی آپ تنخواہیں دیکھ لیں اور پھر ان کو جو مراعات دی جاتی ہیں اس کو بھی دیکھ لیں خانسامہ، چوکیدار، مالی، ڈرائیور سرکار کی طرف سے انہیں دیے جاتے ہیں اس کے علاوہ مفت بجلی گیس اور پٹرول الگ سے دیے جاتے ہیں ایک دفعہ میں نے یہ رپورٹ پڑھی تھی اسلام آباد میں اعلیٰ سرکاری ملازمین گرمیوں میں بھی لحاف اوڑھ کر لیٹتے ہیں مفت کی بجلی ہونے کی وجہ سے ہر کمرے میں فل اے سی چلتا ہے اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے حکمران ہماری اشرافیہ کے اللے تللوں پر پابندی لگائے اس طرح ہر ماہ لاکھوں لیٹر پٹرول کی بچت ہو سکتی ہے حکومت اپنے اخراجات بھی کم کرے یہ جو آئے دن کابینہ کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور وزیر اعظم سیاسی رشوت کے طور اپنے معاونین کی تعداد بڑھائے چلے جارہے ہیں اس سے غیر ضروری اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔
یہ بات بھی اب آہستہ آہستہ عوام میں زیر بحث آرہی ہے کہ مریم نواز اور نواز شریف اقتدار لینے کے حق میں نہیں تھے لیکن شہباز شریف نے کہا کے ہمیں اپنے مقدمات کو ختم کرانے میں آسانی مل جائے گی، نیب کے قوانین تبدیل کیے جاسکتے ہیں، انتخابی اصلاحات ہوجائیں گی، اگلے انتخابات میں ن لیگ کو سہولت مل سکتی ہے لیکن انہیں شاید یہ پتا نہیں تھا کہ ملک کی معاشی حالت ان کے ہاتھ پائوں جکڑ کر رکھ دے گی اب بار بار لندن سے پیغام آتے ہیں پی ڈی ایم کی دوسری جماعتوں بالخصوص پی پی پی اور جے یو آئی کو بھی سارے فیصلوں میں آن بورڈ لیا جائے معلوم ہوا کہ بلاول زرداری تو بیرون ملک دورے کررہے ہیں اور ملک کے اندر مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام ن لیگ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں اور شاید یہی ماحول آصف زرداری کو بھی سوٹ کرتا ہے۔