ایک اور پاکستان یا پاکستان پلس

606

ایک دفعہ پاکستان کے معروف دانشور انور مقصود سے کسی نے سوال کیا کہ یہ کیا وجہ ہے کہ بھارتی کرکٹ ٹیم میں صرف ایک مسلمان کھلاڑی ہوتا ہے جبکہ بقیہ دس ہندو یا غیر مسلم ہوتے ہیں انور مقصود نے جواب دیا کہ ایک مسلمان دس پر بھاری ہوتا ہے، یہ تو خیر ایک مزاحیہ جواب تھا لیکن سچی بات یہ ہے کہ جب کبھی ٹیم میں دو مسلمان کھلاڑی ہو گئے تو پورے ہندوستان میں تہلکہ مچ جاتا ہے جب کہ بھارت میں مسلمان کل آبادی کا پچیس سے تیس فی صد ہیں لیکن سرکاری اداروں میں فوج میں ملازمتوں میں مسلمانوں کو کوٹے کے مطابق حصہ نہیں دیا جاتا یہی وجہ ہے کہ بہت پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم نوجوان بیروزگاری کی دلدل میں ڈبکیاں لگاتے رہتے ہیں وہاں کی مسلمان سیاسی و غیر سیاسی تنظیمیں اس ظلم اور ناانصافی کے خلاف آوازیں اٹھاتی تو ہیں لیکن ان کی کہیں سنوائی نہیں ہوتی پھر یہ ہندوتوا کے نعرے، اپنے گھر واپس آجائو یعنی ہندوستانی مسلمانوں کے آبا و اجداد پانچ ہزار سال پہلے ہندو تھے درمیان میں کسی غلط فہمی کی وجہ سے یہ مسلمان ہو گئے لہٰذا یہ مسلمان اگر دوبارہ ہندومت میں واپس آجائیں تو انہیں کچھ نہیں کہ جائے گا دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کے ہندوئوں کا یہ نظریہ صرف مسلمانوں کے بارے میں ہے سکھوں اور عیسائیوں کے بارے میں ان کے یہاں خاموشی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت میں مسلمانوں کی تعداد پاکستان سے زیادہ ہے لیکن بھارتی مسلمانوں کے سیاسی، معاشی، سماجی اور اقتصادی حالات پاکستان سے زیادہ خراب ہیں، اب تو وہاں حالات کچھ بہتر ہوگئے ہیں اب سے بیس تیس سال پہلے تک یہ کیفیت تھی کہ پاکستان سے کوئی فرد اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے بھارت جاتا تو وہاں کے مسلمانوں کی غربت اور خستہ حالی دیکھ کر افسردہ ہوجاتا اسی لیے یہاں سے جانے والے لوگ کپڑوں اور دیگر اشیاء اپنے رشتہ داروں کے یہاں تحفے کے طور پر لے جاتے تھے اب سے تقریباً چالیس برس قبل کا ایک واقع ہے کہ ہمارے محلے کے ایک نوجوان ہندوستان اپنے والدین کے رشتہ داروں سے ملنے اور انڈیا گھومنے کے شوق میں گئے اس لیے ان کی پیدائش تو کراچی ہی کی تھی والدین ان سے اپنے پیدائشی شہر دہلی کا اور وہاں کے محلے کا ذکر کرتے ان کے پاس کسی رشتہ دار کا پتا وغیرہ تو نہیں تھا، چچائوں اور ماموئوں کے نام سنے ہوئے تھے یہ سوچ کر کہ وہاں جا کر دھونڈلیں گے وہ یہاں بغیر کسی کو بتائے چلے گئے، وہ بتاتے ہیں کہ وہ جب دہلی کے اسٹیشن پر اُترے اور وہاں سے ایک سائیکل رکشا لے کر اپنے محلے کی طرف جانے لگے سائیکل رکشا چلانے والا ایک بوڑھا تھا ایک جگہ سڑک پر اونچائی آئی تو وہ رکشے والا اُتر گیا اور ہاتھ سے رکشا کھینچنے لگا انہوں نے کہا مجھے اس پر بہت ترس آیا اور میں بھی رکشے سے اتر کر اسے پیچھے سے دھکا لگانے لگا، رکشے والا بڑی حیرانی سے آنکھیں پھاڑ کو مجھے دیکھنے لگا پھر جب میرا محلہ آیا اور میں نے اُتر کر اُسے کرایہ دیا تو حیرت سے آنکھوں کے ساتھ منہ بھی پھاڑ کر مجھے دیکھتے ہوئے پوچھا کہ بابو جی کیا تم پاکستان سے آئے ہو میں نے کہا ہاں پاکستان سے آیا ہوں۔
وہ صاحب پھر کس طرح اپنے رشتے داروں کے یہاں پہنچے یہ ایک الگ دلچسپ کہانی ہے رکشے والے کے واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک زمانے میں بھارت کے لوگوں کے معاشی حالات پاکستانیوں سے زیادہ خراب تھے۔ ابھی تین چار روز قبل میں اخبار میں ایک تصویر دیکھ کر چونک گیا بھارت کے شہر الہٰ آباد میں (اب الہٰ آباد کا نام بدل کر کچھ اور رکھ دیا گیا ہے) ایک صاحب جاید احمد کے مکان کو بلڈوزر سے گرایا جارہا ہے۔ چونکنے کی ایک وجہ تو گرائے جانے والے گھر کے متاثرہ فرد کا میرا ہم نام ہونا دوسری وجہ شہر الہٰ آباد کے نام کی انسیت کہ بچپن میں ہماری والدہ اپنے بچپن کی یادوں کو ہمارے ساتھ شیئر کرتی تھیں الہٰ آباد کے ساتھ اس کے کئی محلوں اور بستیوں کے نام مجھے ازبر ہوگئے تھے پھر میں امی سے اپنی اس خواہش کا اظہار کرتا کہ امی ہم انڈیا چلیں گے اور آپ کے شہر الہٰ آباد گھوم کر آئیں گے۔ خیر! اخبار میں مکان گرائے جانے کی تصویر دیکھ کر ہم اس سوچ میں پڑ گئے کہ ہم سے اچھے تو بھارت کے مسلمان عاشق رسولؐ ہیں کہ اپنے نبی کی محبت میں اپنے گھروں کو ملیا میٹ ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں، جاوید صاحب کا قصور کیا ہوگا یہی نا کے انہوں نے اس ملعونہ جس نے ہمارے پیارے نبیؐ کی شان میں گستاخی کی ہے کے خلاف کوئی جلوس منظم کیا ہوگا کسی مظاہرے میں شریک ہوئے ہوں گے ہوسکتا ہے کسی جگہ کوئی جذباتی تقریر کی ہو اور یہاں ہمارا حال یہ ہے کہ ہم ناموس رسالت کے حوالے کوئی مظاہرہ یا ریلی نکانا چاہیں تو اس میں بھی لوگ بڑی تعداد میں شریک نہیں ہوتے یہ ہمارے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ بھارت کے مسلمان تو اپنے گھروں مسمار کرارہے ہیں اور ادھر ہم ناموس رسالت کے حوالے سے کسی مظاہرے یا جلوس میں شریک نہیں ہو پاتے ہمیں اس پہلو سے ضرور سوچنا چاہیے ہمارے پیارے نبیؐ نے اپنی امت سے کتنے گہرے عشق کا اظہار کیا ہے کہ اپنی اس دعا کو محفوظ رکھا ہے جو وہ اپنی امت کی معافی لیے اللہ تعالی ٰ سے مانگیں گے۔
بھارت کے مسلمان اس وقت کئی مشکلات اور مصائب کا شکار ہیں بی جے پی کی انتہاپسند حکومت نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے ایک دفعہ میں نے ایک ویڈیو دیکھی تھی کہ یوپی کے کسی شہر کے ایک تھانے میں دو مسلمان نوجوانوں کو پولیس والے کس طرح ڈنڈوں سے ان پر تشدد کررہے ہیں ان نوجوانوں میں سے ایک لنگڑا تھا مجھ سے زیادہ دیر یہ ویڈیو دیکھی نہ جاسکی ان نوجوانوں پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے گائے ذبح کرکے اس کا گوشت فروخت کیا جبکہ وہ نوجوان چلا چلا کر کہہ رہے تھے ہم نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا اب تو ایسی بھی اطلاعات ہیں کسی بھی مسلمان پر گائو کشی کا الزام لگا کر اسے تشدد کرکے جان سے مار دیا جاتا ہے۔
اگر بھارتی حکومت کی انتہا پسندی اور تعصب کا یہ سلسلہ بڑھتا رہا تو ایک وقت آئے گا جب ہندوستان کے اندر سے ہی آزادی کی نئی تحریکیں جنم لیں گی اور بھارت ہی میں سے نئے پاکستان کی آواز بلند ہوگی آپ اس کو پاکستان پارٹ 2 یا پاکستان پلس کہہ سکتے ہیں۔