اسد اللہ اور ان کے ساتھی منزل مراد کے راہی

451

گواہی دی جارہی ہے کہ یہ چار یار متحرک نوجوان تھے اور اپنے وطن کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ شمالی وزیرستان جو سابقہ قبائلی علاقہ اور حالیہ خیبر پختون خوا کا حصہ ہے یہاں ان چار ساتھیوں کو قتل کردیا گیا۔ یہ چاروں اس علاقے کے پڑھے لکھے نوجوان تھے۔ سعید احمد داوڑ، وقار احمد داوڑ، عمار داوڑ اور چوتھے اسد اللہ داوڑ جو الخدمت اور اسلامی جمعیت طلبہ بنوں سے وابستہ تھے۔ قیام امن کی کوششوں میں مصروف ان چاروں دوستوں کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شہید کردیا جب یہ اپنے ایک دوست کے گھر کھانے کی دعوت میں شرکت کرکے واپس جارہے تھے۔ یہ نامعلوم کون تھے؟ اس بارے میں اب تک معلوم نہیں ہوسکا۔ نہ اس حملے کی ذمے داری کسی تنظیم نے قبول کی ہے۔ ان نوجوانوں کے ساتھیوں کو ابھی تک اس بات پر یقین نہیں آیا کہ اسد اللہ اور ان کے تین ساتھی انہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ ابھی ابھی زندگی کے میدان میں عزم اور ارادے سے اترنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ بڑے خواب دیکھنے والے اب خواب بن گئے۔ ان کے ایک غم زدہ دوست کہتے ہیں کہ ہم تو یہ سمجھ ہی نہیں پارہے کہ آخر انہیں کیوں ٹارگٹ کیا گیا؟ یوتھ آف وزیرستان مکمل طور پر غیر سیاسی تنظیم ہے یہ تو صرف اور صرف وزیرستان میں امن اور خوشحالی کی بات کرتی ہے اس مقصد کے لیے کوئی اپنے سیاسی نظریات کو کبھی درمیان میں نہیں لاتا۔ اسد اللہ اور ان کے ساتھی اس کے بانی اراکین میں سے تھے۔ عابد آفریدی جو قبائلی جرگہ پاکستان کے صدر ہیں کہتے ہیں کہ یہ چاروں شہید انجینئر اسد اللہ، وقار احمد، سعید اور عمار کا بچپن اور نوجوانی صاف ستھری ہے یہ وزیرستان کے درخشاں ستارے تھے جنہوں نے اپنے بچپن اور نوجوانی کیمپوں میں گزاری مگر کبھی انتہا پسندی کی طرف نہیں گئے۔ ہاں ان کا ایک مشترکہ مشن تھا کہ وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں امن اور خوشحالی لائی جائے۔ اس راہ میں ان کو بڑی مشکلات پیش آئیں لیکن وہ اپنے مقصد سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹے ہمیشہ جائز جمہوری آئینی اور قانونی راستے اختیار کیے۔ گھروںکے بجائے کیمپوں میں زندگی گزاری اپنے پیاروں کی اپنے دوستوں کی لاشیں اٹھائیں لیکن اپنی راہ کو نہ چھوڑا۔
اسد اللہ جمعیت کے تراشیدہ ہیرے تھے۔ انہوں نے یوتھ آف وزیرستان کی بنیاد رکھی اور جس وقت یہ کام کیا اس وقت وہ کیمپوں میں زندگی گزار رہے تھے۔ پرویز مشرف کے دور میں وزیرستان امریکا کا خاص نشانہ تھا۔ اپنے ساتھیوں کی ٹارگٹ پر اسد اللہ اور اُن کے چاروں ساتھیوں نے عہد کیا کہ وہ بھی اُسی راستے پر چلتے رہیں گے اس وقت تک جب تک انہیں بھی قتل نہ کردیا جائے یا وہ اپنی منزل تک نہ پہنچ جائیں۔ وہ اپنے عہد پر قائم رہے۔ اسد اللہ اور ان کے ساتھیوں کو قتل کردیا گیا۔ ان کے مسکراتے چہروں سے ظاہر ہے کہ وہ اپنی منزل تک پہنچ گئے ہیں۔ دوسری طرف نامعلوم افراد ہیں۔ یوں تو وہ بڑے مشہور ہیں اتنے مشہور کہ ان کے نام پر فلم بن گئی اس نے دھوم بھی مچادی لیکن اصل قیامت انہوں نے ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ڈھائی۔ جس کو جب چاہا جیسے چاہا مارا کراچی کے لوگوں سے زیادہ کون ان کے زخم خوردہ میں شامل ہے۔ حیرت یہ ہے کہ کبھی یہ نامعلوم معلوم میں بدل بھی جاتے ہیں تو انہیں ساری سہولتوں کے ساتھ جیلوں میں رکھا جاتا ہے پھر بعد میں ثبوت کے عدم فراہمی کے ساتھ باعزت بری بھی کردیا جاتا ہے۔ انتخابات کے موقعوں پر خاص ہوتا ہے۔ وہ امیدوار ہوتے ہیں یا ان کے حامی ہوتے ہیں اور سارے معاملات سے پاک صاف ہو کر حکومت کے ایوانوں میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اور دیگر ایجنسیاں کیا پولیس کیا ایف بی آئی کیا سی آئی ڈی اور کیا آئی ایس آئی سب ہی انہیں پکڑنے میں کامیاب نہیں ہوتیں یا بقول لوگوں کے آدھے نامعلوم یہی ہوتے ہیں اور باقی آدھے جان پہچان اور اغل بغل والے۔
عوام کی کہی گئی یہ باتیں کتنی درست ہیں۔ اس پر وہی روشنی ڈال سکتے ہیں۔ ایک زمانے میں ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) کا شمار بھی کچھ ایسے ہی نامعلوم لوگوں میں ہوتا تھا۔ جن سے ملک کو پاک کرنے کے لیے باقاعدہ آپریشن راہ راست اور دیگر براہ راست کیے گئے۔ اب تو مذاکرات مذاکرات کا کھیل جاری ہے جس کے تحت 12 روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔ جنگ بندی کے یہ بارہ دن دس شوال تک ختم ہوگئے۔ نامعلوم لوگوں کا کھیل شروع ہوگیا اس وقت مذاکرات جاری ہیں۔ طالبان سے مذاکرات میں اہم شرائط منوانا چاہیے کہ وہ آئین کو مانیں، ہتھیار پھینکیں اور عہد کریں کہ ریاست کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے۔ معاہدے کرنے والے خود بھی معاہدوں کی پابندی کریں۔ ساتھ اسد اللہ کے مسکراتے پرسکون مطمئن چہرے ہی سے کچھ سبق لے لیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ منزل مراد پا گئے۔