حکمرانوں کو این آر آو۔2 مبارک

532

مجلس شوریٰ کے ایوان بالا، سینٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد انتخابی ترمیمی بل 2022ء اور قومی احتساب بیورو ترمیمی بل 2022ء قانون کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی وضاحت کے مطابق آئین کی دفعہ 75 کی شق 2 کے تحت پارلیمنٹ میں دونوں قوانین منظور کئے گئے تھے تاہم جب صدر مملکت کو یہ دونوں بل دستخطوں کے لیے بھجوائے گئے تو انہوں نے ان پر دستخط کر کے انہیں قانون کا درجہ دینے کے بجائے ان پر اعتراضات لگا کر واپس بھجوا دیا مگر حکومت نے صدر مملکت کی جانب سے بلوں میں کی گئی غلطیوں کی نشاندہی پر توجہ دینے اور اعتراضات دور کرنے کی بجائے مجلس شوریٰ کے مشترکہ اجلاس میں انہیں دوبارہ منظوری کے لیے پیش کر دیا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے انتخابی ترمیمی بل میں سترہ جب کہ قومی احتساب ترمیمی بل میں پچیس اعتراضات کئے تھے اور اپنی جانب سے بلوںکی اصلاح کے لیے سفارشات بھی پیش کی تھیں مگر حکومتی وزراء نے ان پر غور کرنے کے بجائے صدر مملکت کی ذات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اپنے ترمیمی بلوں کی جوں کی توں دوبارہ منظوری پر اصرار کیا۔ ایوان میں حقیقی حزب اختلاف کی غیر موجودگی کے باعث حکومت کو اپنے عزائم کی تکمیل میں کوئی مشکل بھی پیش نہیں، جماعت اسلامی کے ایوان بالا میں اکلوتے رکن نے اپنی ذمہ داریوں کااحساس کرتے ہوئے دونوں بلوں میں مثبت ترامیم پیش کرنا چاہیں مگر حکومت کی طرف سے ان کی بھی سخت مخالفت کی گئی اور ان کی تجاویز پر غور و فکر اور بحث کے بعد انہیں منظور یا مسترد کرنے کے بجائے یہ ترامیم پیش ہی نہیں کرنے دی گئیں جس سے جمہوریت کے دعویدار حکمرانوں کے آمرانہ طرز عمل کی تائید ہوتی ہے۔ بہرحال حکومت نے اپنی من پسند ترامیم مجلس شوریٰ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کروا لیں اس منظوری کے دس دن بعد یہ دونوں بل صدر مملکت کے دستخطوں کے بغیر ہی خود بخود قانون بن گئے۔ اس نئے منظور شدہ قومی احتساب بیورو کے قانون میں چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ کے بعد کا طریقہ کار وضع کر دیا گیا ہے جس کے مطابق چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے، ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی میں ادارے کے کسی سینئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کا چارج ملے گا، ڈپٹی چیئرمین نیب کا تقرر صدر کے بجائے اب وفاقی حکومت کرے گی۔ نیب ترمیمی ایکٹ کے مطابق نئے چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے مشاورت کا عمل 2 ماہ پہلے شروع کیا جائے گا اور 45 روز میں مکمل ہو جائے گا۔ وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق رائے نہ ہونے پر تقرر کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو جائے گا، پارلیمانی کمیٹی چیئرمین نیب کا نام 30 روز میں فائنل کرے گی، چیئرمین نیب کی 3 سالہ مدت کے بعد اسی شخص کو دوبارہ چیئرمین نیب نہیں لگایا جائے گا۔ ایکٹ کے مطابق ٹیکس، وفاقی صوبائی کابینہ، کونسلز، اسٹیٹ بنک کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہو گئے ہیں۔ مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی یا صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائر ہ اختیار میں نہیں آئیں گے، مالی فائدہ لینے کے ثبوت کے بغیر طریقہ کار کی خرابی پر نیب کارروائی نہیں ہو گی، وفاقی اور صوبائی ٹیکس معاملات بھی نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے ہیں۔ ترمیمی بل کے مطابق وفاقی، صوبائی قوانین کے تحت بنی ریگولیٹری باڈیز کے کیسز پر نیب کا اختیار ختم ہو گیا۔ کسی بھی ریگولیٹری ادارے کے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کر سکے گا۔ نیب قانون میں محض گمان پر ملزم کو سزا کی شق 14 ختم کر دی گئی۔ چیئرمین نیب ملزم کے فرار ہونے یا شہادتیں ضائع کرنے کے ٹھوس شواہد پر وارنٹ جاری کر سکیں گے۔ نیب افسران پر انکوائری یا انویسٹی گیشن کی تفصیل عام کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ عام کرنے کی صورت میں نیب افسر کو ایک سال قید، دس لاکھ جرمانہ ہو گا۔ ایکٹ کے مطابق احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی تین سال کے لیے ہو گی، مقدمات کے فیصلے ایک سال کے اندر کئے جائیں گے، احتساب عدالت کے جج کو ہٹانے کے لیے متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت ضروری ہو گی، گرفتاری سے قبل نیب شواہد کی دستیابی یقینی بنائے گا، جھوٹا ریفرنس دائر کرنے پر پانچ سال تک قید کی سزا ہو گی۔
قومی احتساب بیورو کے قانون میں کی گئی ان یکطرفہ ترامیم کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ فی الحقیقت یہ این۔ آر۔ او 2 ہے اور اس کا مقصد بدعنوان حکمرانوں اور حکام کو کسی بھی طرح کے احتساب اور جوابدہی کے خوف سے نجات دلانا ہے جب کہ احتساب کرنے کے ذمہ دار افسران کو خوفزدہ کرنا تاکہ کوئی قومی دولت کی لوٹ مار اور بدعنوانی میں ملوث لوگوں پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے سو دفعہ سوچے کہ اسے اس کے کس قدر بھیانک نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ ترمیم شدہ احتساب قانون کے تحت غلطی سے یا جان بوجھ کر غلط ریفرنس دائر کرنے والے نیب کے افسر کو پانچ سال قید بھگتنا ہو گی۔ اسی طرح کسی افسر کی تحقیق یا تفتیش کی تفصیل اگر منظر عام پر آ گئی تو اسے ایک سال قید اور دس لاکھ جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ آئے روز ہماری عدالتوں میں مختلف مقدمات جھوٹے اور غلط ثابت ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو ایک بے گناہ ان جھوٹے مقدمات میں ماتحت عدالت سے سزا کا مستحق ٹھہرا دیا جاتا ہے اور وہ سالہاسال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے بعد بے گناہ ثابت ہوتا ہے مگر ہمارا نظام نہ تو مقدمہ درج کرانے والے کو کوئی سزا دیتا ہے نہ جھوٹی گواہی کے لیے پیش ہونے والوں سے باز پرس ہوتی ہے اور نہ غلط تحقیق و تفتیش کر کے بے گناہ شخص کو سزا دلوانے والے تحقیقاتی افسران کو پوچھا جاتا ہے کہ غلط تفتیش کیوں کی؟ احتساب بیورو کے حکام کے لیے اسی طرح کے کام کے لیے جو سزائیں تجویز کی گئیں ہیں اس کے بعد کیا کسی افسر سے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ کسی بدعنوان حاکم یا حکمران کے احتساب کے بارے میں سوچ بھی سکے گا خاص طور پر جب ملزمان اثر و رسوخ کے مالک بھی ہوں اور ان کے کسی بھی وقت اقتدار میں آنے کے امکانات بھی روشن ہوں بات یہاں بھی ختم نہیں ہو جاتی بلکہ دیگر ترامیم کے مطابق دفعہ 21 (جی) کے تحت بیرون ملک سے آیا ہوا ثبوت نیب عدالت میں قابل قبول نہیں ہو گا۔ دفعہ 14 کے تحت ملزم کے اثاثوں کی منی ٹریل دینے کی ذمہ داری ختم کر کے بار ثبوت استغاثہ پر منتقل کر دیا گیا ہے کہ ملزم کے یہ اثاثے ناجائز ہیں دفعہ (x)9 الف اور دفعہ 5 (ایس) کے مطابق مفاد عامہ کے کیس میں متاخرین کی کم از کم تعداد سو ہونا لازم قرار دیا گیا ہے دفعہ 4 کے تحت ریگولیٹرز اور بیورو کریسی کے بددیانتی پر مبنی فیصلوں کا احتساب نہیں ہو سکے گا۔ دفعہ 23 کے مطابق ملزم دوران تفتیش اپنے اثاثے فروخت کر سکے گا۔ اسی طرح قومی احتساب بیورو پہلے صدر مملکت کے ماتحت تھا مگر اب اسے حکومت کی وزارت داخلہ کے تابع کر دیا گیا ہے اس طرح احتساب کو ہر ممکن طریقے سے مشکل سے مشکل بنا دیا گیا ہے اور نئے قانون میں ملزمان کو تو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں البتہ احتساب کرنے کی ذمہ داری پر مامور افسران کو کسی قسم کا تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور عملاً ملک میں احتساب کے عمل کو ختم اور ناممکن بنانے کی ہمہ گیر کوشش کی گئی ہے جس کی تائید و حمایت اور ستائش بہرحال نہیں کی جا سکتی… !!!