ایف اے ٹی ایف: امریکا اور مغربی عیسائی ریاستوں کا ہتھیار

619

آخری حصہ
جہاں تک عالمی برادری کا تعلق ہے ورلڈ آڈر کی طرح یہ بھی کہیں نہیں پائی جاتی۔ دنیا کے تمام ممالک اور معاشروں سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں۔ اپنی ابتدا سے یہ جس بنیاد پر کھڑی ہے وہ مغربی یورپ کی عیسائی ریاستوں کی برادری اور امریکا ہے۔ ایک ایسا گروہ جو اسلام اور اسلامی ریاستوں سے مخاصمت اور دشمنی کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا ہے۔ مشرقی یورپ کی دیگر عیسائی ریاستوں کو بھی ملا لیا جائے تو یہ یورپ میں عیسائی ریاستوں کی نمائندہ ہے۔ یورپ کی عیسائی ریاستوں کی یہ برادری اپنے اندر غیر عیسائی ریاستوں کی شمولیت کو ممنوع قرار دیتی ہے۔ عالمی برادری کی اصطلاح کا اتنا بھرم بھی نہیں رکھا جاتا کہ غیر عیسائی ریاستوں کو عالمی امور میں بحث میں شامل ہی کیا جائے۔ اگر کسی فورم میں ایسا نظر آتا ہے تو یہ محض دکھاوا اور دھوکا ہے۔ اسلام کے مقابل اس برادری پر عیسائی ریاستوں کے فورم اور اتحاد کا گمان نہ گزرے اس لیے اس کو عالمی برادری کا نام دیا گیا۔ عالمی ظاہر کرنے کے لیے اس پر کام کیا گیا اور ایک عالمی کردار بھی سونپا گیا۔ اس فورم کو پائیدار بنیادیں مہیا کرنے کے لیے اس میں کچھ روایتی ضابطے اور قوانین بھی شامل کیے گئے ہیں جو عیسائی ریاستوں کے مابین ویسٹ فیلیا میں طے پائے تھے۔ اقوام متحدہ۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایف اے ٹی ایف، عالمی عدالت انصاف اور اس جیسے دیگر ادارے بھی تشکیل دیے گئے جو بظاہر عالمی سطح پر اظہار کرتے، معاملات نمٹاتے یا ان میں دخل اندازی کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہ امریکا اور یورپ کی عیسائی ریاستوں کے مفادات کی نگبانی کرتے ہیں۔
عالمی برادری اسلام اور مسلمان دشمن برادری ہے جس کا بین الاقوامی ہونا یورپی عیسائی برادری تک محدود ہے جس میں عالمی قانون کا مطلب اصل میں وہ معاہدے ہیں جو عیسائی ریاستوں کے درمیان طے پائے ہیں یا وہ روایات ہیں جو یورپی عیسائی معاشروں میں رائج ہیں۔ اس پر عالمی برادری کا اطلاق کرنا جعلسازی اور دھو کے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ برادری اپنے سوا کسی کو تسلیم کرتی ہے اور نہ اپنے سوا کسی برادری خصوصاً مسلمانوں کا وجود برداشت کرنے کے لیے تیار ہے۔ گزشتہ صدی کے دوسرے نصف میں بعض غیر عیسائی اور غیر یورپی ریاستوں کو اس میں قبول کیا گیا لیکن یورپی عیسائی ریاستوں کے روایتی پیمانوں کے علاوہ کسی دوسرے پیمانوں کو قبول نہیں کیا گیا۔ اپنے عالمی اثر رسوخ کی وسعت کے لیے امریکا نے اقوام متحدہ کی رکنیت میں توسیع کروائی اور دنیا کے تمام ممالک کو اس میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی لیکن امریکا اور یورپی عیسائی ریاستوں نے اپنے مخالف کسی بھی ملک کے ضابطوں اور قوانین کو اس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ عیسائی ریاستوں کے قواعد ہی عالمی قانون ہیں۔ امریکا اور عیسائی ریاستوں کے معیار اور مفادات اور سرمایہ دارانہ نظام ہی اس وقت ورلڈ آڈر اور عالمی برادری کے نام پر انسانیت کا مقدر ہیں جن میں مسلمانوںکے لیے کچھ نہیں بلکہ اپنی اصل میں یہ اسلام دشمن قوانین اور ادارے ہیں۔
پچھلے ہفتے ہم نے اپنے ایک کالم میں تحریر کیا تھا ’’تحلیل نفسیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ کسی شخص کی زیادہ تر جذباتی زندگی اور زیادہ تر رحجانات، پسندیدہ اور نا پسندیدہ تعصبات کے ڈانڈے اس کی تشکیلی عمر اور ابتدائی بچپن سے ملائے جاسکتے ہیں۔ تو ابن خلدون کے مطابق کیا اقوام، تہذیبوں اور افراد کے مجمع بارے میں ایسا نہیں سوچا جاسکتا۔ صلیبی جنگوں کی صدیاں (1095-1291) مغرب کی تشکیل عمر کی صدیاں تھیں جن میں وہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک اسلام سے بے پناہ تعصب، دشمنی، خونریزی، حملوں اور جنگی جنون میں ڈوبا نظر آتا تھا۔ 25نومبر 1095 کو پوپ اربن دوم نے پادریوں، نائٹوں اور
غریب لوگوں کے ایک اجتماع میں اسلام کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تھا۔ ان جنگوں سے پہلے اور بعد مغرب کبھی اس طرح کی جنونی جذباتیت میں مبتلا نظر نہیں آیا۔ اس عہد کے مغرب میں جاگیرداروں، بادشاہتوں، مظلوم رعایا، رومن سلطنت کی باقیات کے علاوہ اگر کچھ مشترک تھا وہ اسلام دشمنی اور صلیبی جنگیں تھیں۔ یہ جنگیں عیسائی یورپ کی ایک بڑی ضرورت کو پورا کرتی تھیں۔ پوپ نے یورپ کے نائٹوں پر زور دیا کہ وہ آپس میں لڑنا چھوڑ دیں اور خدا کے دشمنوں کے خلاف متحد ہو جائیں۔
سولہویں صدی وہ صدی تھی جب خلافت عثمانیہ نے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا اور یورپ کی عیسائی ریاستوں کے مقابل ایک قوت کے طور پر ابھری یہ صورتحال انیسویں صدی کے دوسرے نصف 1856ء تک برقرار رہی۔ اس دور میں اسلامی ریاست کی کمزوری اس درجے تک پہنچی کہ اسے یورپ کا مردبیمار قرار دیا جانے لگا اور خلافت عثمانیہ کی باقیات کو بانٹنے اور سمیٹنے کے لیے سازشیں سامنے آنے لگیں۔ اس پورے عرصے میں جوتین صدیوں پر پھیلا ہوا ہے عالمی برداری کا مطلب اسلام دشمن برادری تھا جس کے کردار کا تسلسل آج بھی موجود ہے۔ امریکا کے صدر بش کی پہلے سے لکھی ہوئی تقریر میں کروسیڈ کا لفظ اسی تسلسل کا اظہار تھا۔ امریکا اور یورپی عیسائی ریاستوں نے اپنے نام نہاد عالمی قوانین کو دنیا اور اسلامی ملکوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا بلکہ جہاں ضرورت پڑی اسلحے کی نوک پر انہیں نافذ کیا اور جہاں کام نکل سکتا تھا وہاں خود ساختہ اداروں کو آگے لایا گیا جو عالمی امن کے خطرے کے نام پر دوسری ریاستوں کی خودمختاری کی پروا نہ کرتے ہوئے ان کے امور میں مداخلت کرتے ہیں اور انہیں مختلف پابندیوں، اقتصادی بندشوں، مالی اور سیاسی خساروں کے ذریعے اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کے صلیبی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے جہاد، مجاہدین اور جہادی تنظیموں کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے بالآخر معاملات کو ان کے خاتمے کی راہ تک پہنچائیں۔ اس سے کم پر یہ ادارے گرے کو وائٹ کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔
1999ء میں جب پاکستان کے تعاون سے مسلمان مجاہدین نے پاکستان ہندوستان سرحد پر واقع کارگل کی چوٹیوں پر حملہ کیا تب امریکی صدر بل کلنٹن سے مذاکرات کے نتیجے میں اگر نواز شریف کارگل سے مجاہدین کو واپس نہ بلاتے تو کشمیر کی آزادی ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکی تھی۔ دوسری طرف افغانستان میں ملا عمر ؒ کی سربراہی میں طالبان حکومت۔ امریکا کی طرف سے افغانستان پر صلیبی حملے کی ایک وجہ اگر طالبان کی حکومت تھی تو دوسری وجہ کشمیر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کو کچلنا بھی تھا۔ کارگل کا واقعہ امریکا کے لیے خطرے کی گھنٹی تھا۔ اس لیے ایک طرف اس نے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں آپریشن میں تیزی لانے اور ہر قسم کے ظلم و درندگی روا رکھنے کا اشارہ کیا اور یہ اہتمام کیا کہ عالمی برادری اس سمت آنکھیں بند رکھے گی۔ دوسری طرف اس نے پرویز مشرف کو حکم دیا کہ وہ پاکستان میں اسلامی جہادی کیمپوں کو ختم کرے اس کے لیے جواز یہ تراشا گیا کہ پاکستان دہشت گردی ایکسپورٹ کر رہا ہے کہ ان کیمپوں سے نکل کر بھارت کے خلاف لڑنے والے باہر جاکر دہشت گردی کررہے ہیں۔
امریکا کے کہنے پر پرویز مشرف نہ صرف مسئلہ کشمیر کے سیاسی تعاون بلکہ حق خودارادیت سے بھی دستبردار ہوگئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ عملی طور پر پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا حق تسلیم کر لیا ہے یہی وجہ ہے کہ جب مودی نے کشمیر کو بھارت میں ضم کیا تو پاکستان محض ایک تماشائی تھا۔ مسئلہ کشمیر کی راکھ میں جو ایک دو دبی ہوئی چنگاریاں تھیں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے انہیں بھی بجھادیا گیا ہے اب بھارت کو کشمیر میں کوئی مسئلہ ہے اور نہ پاکستان کے ساتھ مغربی سرحد پر۔ کشمیر کے مجاہدین کو مضبوط کرنے کے بجائے ہم بھارت کو مضبوط کررہے ہیں۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اہل کشمیر اور مجاہدین کشمیر کا حامی وناصر ہو۔ اس دنیا میں تو فی الوقت ان کا مددگار کوئی نہیں۔ اور ہاں ایک بات تو ہم بھول ہی گئے، اہل پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کی خوش خبری مبارک ہو۔ اس کارکردگی پر آفرین صد آفرین۔