ایف اے ٹی ایف‘ فیصلہ نہیں ہوا‘ جشن برپا ہے

634

ایف اے ٹی ایف (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) کے موجودہ صدر نے برملا اعتراف کیا ہے کہ ان کے ادارے نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے جو شرائط عائد کی تھیں پاکستان نے وہ تمام شرائط پوری کردی ہیں اب اِسے گرے لسٹ سے نکالنے میں کوئی رکاوٹ مانع نہیں رہی۔ تاہم فیصلہ اکتوبر کے اجلاس میں اس تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے بعد کیا جائے گا جو اجلاس سے قبل پاکستان کا دورہ کرے گی اور زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے یا برقرار رکھنے کی سفارش کرے گی۔ اس سفارش کی روشنی میں ایف اے ٹی ایف کا بورڈ آف ڈائریکٹرز پاکستان کے بارے میں اپنے فیصلے کا اعلان کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر مملکت برائے خارجہ امور مسز ربانی کھر نے کہا ہے کہ ہم ابھی کامیابی سے ایک قدم پیچھے ہیں اس لیے کامیابی کا جشن منانا قبل ازوقت ہے۔ ہمیں ایف اے ٹی ایف کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے لیکن اس کے باوجود ہمارے ہاں ممکنہ کامیابی پرجشن برپا ہے اور ارباب اقتدار ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آرمی چیف جنرل باجوہ کو ٹیلی فون کرکے مبارک باد دی ہے اور اس سلسلے میں ان کی کوششوں کو سراہا ہے۔ فوج کے ترجمان نے بھی اس کامیابی کا سہرا اسٹیبلشمنٹ کے سر باندھتے ہوئے اس کی کوششوں پر روشنی ڈالی ہے۔ حکومتی ارکان بھی اس حوالے سے خیر مقدمی بیانات دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ وزیر مملکت برائے خارجہ مسز ربانی کھر نے ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی اور اجلاس کو بتایا تھا کہ پاکستان نے اس ادارے کی تمام شرائط پوری کردی ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں تفصیل سے پریزنٹیشن دی تھی جس پر ادارے کے صدر نے مثبت ردعمل کا اظہار کیا لیکن فیصلے کو تفتیشی ٹیم کی رپورٹ سے مشروط کردیا۔ یہ معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ منیر نیازی نے کہا ہے۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
بظاہر ہم کامیابی سے ایک قدم پیچھے ہیں لیکن یہ ایک قدم ایک دریا سے کم نہیں ہے جسے پار کرنا اگرچہ آسان نظر آرہا ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جن ممالک (امریکا، برطانیہ، اسرائیل اور بھارت) نے پاکستان کوگرے لسٹ میں ڈلوایا ہے وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان اس پھندے سے آزاد ہو۔ بھارت کی تو خواہش اور کوشش یہ ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ کے بجائے بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے اور اس پر انتہائی سخت معاشی پابندیاں لگادی جائیں۔ بھارت کو مقبوضہ کشمیرمیں جس مسلح مزاحمت کا سامنا ہے وہ اس کے ڈانڈے پاکستان سے ملاتا ہے۔ اور اسے ’’ٹیرر فنانسنگ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے جب کہ ایف اے ٹی ایف کا دائرہ کا کام ہی ’’ٹیررفنانسنگ‘‘ کی روک تھام کرنا ہے۔ چناں چہ بھارت کی ابتدا ہی سے یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے لیکن بوجوہ وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکا البتہ اس کی یہ کوشش کامیاب رہی ہے کہ پاکستان گرے لسٹ سے نہ نکلنے پائے۔ اس کوشش میں اسے امریکا کی تائید بھی حاصل ہے۔ امریکا نے جس طرح آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کی گردن دبوچ رکھی ہے اسی طرح ایف اے ٹی ایف کے ذریعے بھی وہ پاکستان پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہتا ہے۔ یہ دونوں ادارے عملاً عالمی استعمار کے ایجنٹ کے طور پر کام کررہے ہیں اور ان کا واحد مقصد مسلمان ملکوں کی آزادی و خودمختاری کو سلب کرنا ہے۔
ہم یہ سب کچھ اندیشے اور واہمے کے طور پر نہیں لکھ رہے بلکہ حقیقت واقعہ یہی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے موجودہ صدر نے پاکستان کے حق میں مثبت رائے کا اظہار تو کردیا ہے لیکن اس کے حق میں فیصلہ دینے سے گریز کیا ہے کیوں کہ وہ امریکا اور بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا اب پاکستان کے بارے میں فیصلہ ایف اے ٹی ایف کا آئندہ صدر کرے گا جس کا تقرر عنقریب ہونے والا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ نئے متوقع صدر کی شہریت اگرچہ سنگاپور کی ہے لیکن درحقیقت وہ بھارتی باشندہ ہے جو آئندہ ایف اے ٹی ایف کی سربراہی سنبھالنے گا۔ اب اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بھارتی باشندے کی صدارت میں ایف اے ٹی ایف پاکستان کے حق میں کوئی فیصلہ کرسکتا ہے؟ ایف اے ٹی ایف کے آئندہ اجلاس سے قبل جو تفتیشی ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی اس کی کمپوزیشن ہی ظاہر کردے گی کہ پاکستان کے بارے میں اس کا رویہ کیا ہوگا۔
اندریں حالات ہمیں ایف اے ٹی ایف کے ممکنہ فیصلے کے بارے میں کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ نہ ہی قبل ازوقت کامیابی کا شور مچا کر جشن برپا کرنے کی گنجائش ہے۔ یہ مفادات کی دنیا ہے، طاقتور قومیں یا غالب طاقتیں سچ اور جھوٹ کو اپنے مفادات کی عینک سے دیکھتی ہیں، وہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کا پورا اختیار رکھتی ہیں۔ پاکستان کے ساتھ ان کا رویہ بھی اس حکمت عملی پر مبنی ہے۔ ان کا مفاد اگر یہ ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا جائے تو تفتیشی ٹیم کی رپورٹ بھی پاکستان کے حق میں ہوگی اور ہم جشن منانے میں حق بجانب ہوں گے۔ بصورت دیگر ہمیں ’’انہونی‘‘ کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔